واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’امریکی حکام جائزہ لیں کہ 2001 سے لے کر 2020 کے دوران پاکستان سمیت طالبان کو مدد فراہم کرنے والے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کا کردار کیا تھا اور اس میں طالبان کو محفوظ پناہ گاہوں، مالی اور انٹیلیجنس مدد، طبی ساز و سامان، تربیت اور تکنیکی یا سٹریٹجک رہنمائی کا معاملہ بھی شامل ہو۔‘
’اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ حکومتِ پاکستان سمیت ریاستی اور غیرریاستی عناصر کی جانب سے طالبان کو 2021 کی اس کارروائی میں کتنی مدد حاصل رہی جس کا نتیجہ افعانستان کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں نکلا اور یہ کہ پاکستان سمیت یہ عناصر 2021 میں ہی وادی پنجشیر میں مزاحمتی فورس کے خلاف طالبان کے آپریشن میں کیسے مددگار رہے؟‘
یہ مطالبات امریکی سینیٹ میں منگل کو پیش کیے گئے ’افغانستان کاؤنٹر ٹیررازم، اوور سائٹ اینڈ اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ‘ نامی بل میں کیے گئے ہیں اور امریکی انتظامیہ سے ان معاملات کی تحقیقات کے بعد ’180 دن میں پہلی رپورٹ‘ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔
یہ بل کس نے پیش کیا اور اس میں مزید کیا ہے؟
رپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جم رشک نے 22 ساتھی سینیٹرز کے ہمراہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ’افغانستان سے جلد بازی میں انخلا کے فیصلے‘ اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا جائزہ لینے کے لیے یہ بل پیش کیا ہے جس میں افغان طالبان اور ان کی مدد کرنے والی حکومتوں، بالخصوص پاکستان پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
اس مسودے میں امریکی محکمۂ خارجہ سے افغانستان سے امریکی شہریوں، اور افغان سپیشل امیگرنٹ ویزا رکھنے والے افراد کو ملک سے نکالنے کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
اس کے علاوہ بل میں طالبان کے خلاف مقابلے کے لیے اور طالبان کے پاس امریکی ساز و سامان اور اسلحے کو واپس حاصل کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔
بل میں سب سے اہم جزو ان عناصر پر پابندی کے مطالبے کا ہے جن پر طالبان کو مدد فراہم کرنے کا الزام ہے اور اس میں بیرونی حکومتیں بھی شامل ہیں اور پاکستان کا اس میں بالخصوص نام لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی سینیٹ میں اس وقت ڈیموکریٹک اور رپبلکن سینیٹرز کی تعداد برابر ہے (دونوں کے 50، 50 ممبران ہیں) اور کسی بل کو پیش کرنے اور اس کو منظور کرانے کے لیے اکثریت نہ ہونے کی صورت میں نائب صدر کملا ہیرس کا حتمی ووٹ استعمال کیا جائے گا۔
اس بل کے حوالے سے دیے گئے اپنے بیان میں سینٹر جم رشک نے کہا کہ امریکہ کو طالبان سے دوبارہ سے خطرہ ہے اور انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اس کی مدد سے ان افراد کی جلد سے جلد مدد کر سکیں گے جو افغانستان میں ابھی بھی موجود ہیں اور اس بل کی مدد سے امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کر سکیں گے۔
‘پاکستان کو وار آن ٹیرر میں امریکی اتحادی ہونے کی سزا مل رہی ہے’
بل کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر سلسلہ وار ٹویٹس میں تبصرہ کرتے ہوئے شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ 80 ہزار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے حالانکہ ’یہ کبھی بھی پاکستان کی جنگ نہیں تھی۔‘
So again Pak will be made to pay heavy price 4 being an ally of US in its "War on Terror" as a Bill (see pp 25-26) is introduced in US Senate in aftermath of the US's chaotic Afghan withdrawal followed by collapse of ANA & Ashraf Ghani's flight to UAE. https://t.co/PQFQyYkEN2
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) September 28, 2021
شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان کو ’وار آن ٹیرر‘ میں امریکی اتحادی ہونے کی سزا مل رہی ہے حالانکہ ’امریکہ اور نیٹو نے 20 سال کا عرصہ گزرنے کا باوجود افغانستان میں کوئی مستحکم حکومت قائم نہیں کی۔‘
Enough is enough. It is time for those powers who were present in Afghanistan to look to their own failures instead of targeting Pak which paid a heavy price in lives lost, social & econ costs, refugees – all for being an ally & suffering constant abuse, in a war that wasnt ours.
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) September 28, 2021
انھوں نے ٹویٹ میں سوال اٹھایا کہ امریکہ کی جانب سے 20 کھرب ڈالر کی امداد کدھر گئی؟
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’افغان آرمی اتنی جلدی کیسے ختم ہو گئی؟ پاکستان سے طالبان کی قیادت کو رہا کرنے کا مطالبہ کس کا تھا؟ دوحا میں طالبان سے معاہدہ کس نے کیا اور ان کی واشنگٹن ڈی سی میں میزبانی کس نے کی؟‘
شیریں مزاری نے کہا کہ ’اب بس بہت ہو چکا ہے‘ اور وہ طاقتیں جو افغانستان میں تھیں ان کو چاہیے کہ پاکستان پر الزامات لگانے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
کیا یہ بل واقعی پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؟
واشنگٹن ڈی سی میں تھنک ٹینک نیو لائنز انسٹٹیوٹ فار سٹریٹجی اینڈ پالیسی کے ڈائریکٹر کامران بخاری نے اس بل کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی نظر میں یہ بل امریکہ کی اپنی مقامی سیاست کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے اور رپبلکن پارٹی اگلے ایک سال میں ہونے والے وسط مدتی الیکشن کا سوچ رہی ہے۔
’دوسری بات یہ ہے کہ ابھی اس بل کی حمایت میں صرف 22 ممبران ہیں اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رپبلکن پارٹی کے اور کتنے ممبران اس کی حمایت کریں گے اور کیونکہ یہ بل کافی مبہم ہے تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ آگے کیا ہو گا اور کب کچھ ہو گا۔‘
صحافی اور تجزیہ نگار سرل المیڈا نے بھی اس بل کے حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ نائن الیون کے بعد سے امریکہ میں خارجہ پالیسی پر کام کرنے والوں کے ذہنوں میں پاکستان کے لیے جارحانہ اور منفی تاثرات ہیں لیکن اس وقت کے بعد سے آنے والی تمام امریکی حکومتیں پاکستان کی اہمیت کو سمجھتی ہیں۔
کامران بخاری نے بھی اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں نہیں لگتا کہ امریکی حکومت پاکستان پر حد درجہ دباؤ ڈالے گی لیکن ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ممکن ہے کہ انتظامیہ اس بل کو وجہ بناتے ہوئے پاکستان کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
’جو بائیڈن انتظامیہ یہ کہہ سکتی ہے کہ دیکھیں یہ بل رپبلکن پارٹی نے پیش کیا ہے اور اس میں ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن آپ بتائیں کہ آپ کیا دے سکتے ہیں، تاکہ ہم اس کی مدد سے اس بل کو روک سکیں۔‘
دوسری جانب سرل المیڈا نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ نے جیسے تیسے ایک دوسرے کے ساتھ دو دہائیاں گزار تو لی ہیں لیکن اب کیونکہ امریکہ چین کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور ابھی تک انھوں نے پاکستان کی جانب دوستانہ ہاتھ نہیں بڑھایا ہے تو ان دونوں ممالک کے مستقبل کے تعلقات غیر یقینی نظر آتے ہیں۔
اس بل میں پاکستان پر لگائے گئے الزامات مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں یا ان میں حقیقت ہے؟
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے پاکستان کی جانب سے عالمی برادری سے مطالبہ سامنے آ چکا ہے کہ وہ طالبان کو ’موقع‘ دیں۔ وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں دوشنبے میں کہا تھا کہ انھوں نے تمام گروہوں کی نمائندہ حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔
پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید بھی کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ طالبان کی حکومت کو وقت دینا چاہیے۔
حال ہی میں انھوں نے کہا کہ ’عالمی برادری طالبان کو وقت اور وسائل دے، امید ہے طالبان اپنے وعدوں پر عمل درآمد کریں گے۔‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان ’افغانستان کی حکومت کو مشورہ دے سکتا ہے، کسی خاص فیصلے پر مجبور نہیں کر سکتا۔‘
پاکستان اور طالبان کے تعلقات اور ان میں حقیقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے سرل المیڈا نے کہا کہ اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اگر پاکستان کی مدد اور حمایت نہ ہوتی تو طالبان اتنے طویل عرصے تک کامیابیاں حاصل نہ کر پاتے۔
’لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہوگی کہ پاکستان نے طالبان کی مدد کیوں کی؟ پاکستان نے طالبان کو افغانستان کی سرزمین پر انڈیا کا اثر و رسوخ روکنے کے لیے استعمال کیا اور اس لیے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس خطے کے پشتون قوم پرستی کی جانب مائل نہ ہوں۔‘
سرل المیڈا یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے رہنماؤں کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ وہ جذباتی رد عمل نہ دیا کریں۔
‘وہ پاکستانی عوام کا سوچیں اور ٹوئٹر پر ہر چیز نہ بولا کریں جو پاکستان کے حریفوں کو پاکستان پر تنقید کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔’
ادھر کامران بخاری کا پاکستان اور طالبان کے تعلقات اور مدد کے سوال پر کہنا تھا کہ وہ اس بل میں پنجشیر کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کو تو مضحکہ خیز سمجھتے ہیں لیکن دوسری جانب انھوں نے بھی کہا کہ پاکستان کی جانب سے طالبان کو مدد اور تحفظ فراہم کرنے والی بات کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے اور یہ تو پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید خود تسلیم کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے طالبان پر اس وقت اتنا دباؤ نہیں ڈالا جب ان کو کرنا چاہیے تھا اور جب وہ کر سکتے تھے۔
’پاکستان کے لیے یہ محض تخیل کی ناکامی کا مظہر ہے۔ ان کے پاس بہت مواقع تھے جب وہ طالبان کے خلاف ٹھوس اقدامات لے سکتے تھے۔ ایک جانب پاکستانی فوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ کہتے ہیں کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لیکن دوسری جانب زمینی حالات اس پالیسی کے متضاد ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ہمیں قیادت میں کمی نظر آئی ہے، ہمت میں کمی نظر آئی ہے۔‘