لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’طالبان نے مجھے بتایا کہ میری بہن کی جلد ہی کسی جنگجو سے زبردستی شادی کر دی جائے گی۔‘
یہ الفاظ برطانیہ میں مقیم ایک افغان طالب علم کے ہیں جو سکالرشپ پر یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں۔ جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو وہ طیارے کے ذریعے برطانیہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تاہم وہ اپنے خاندان والوں کو ساتھ نہ لا سکے۔
’وہ کہہ رہے ہیں کہ میری بہن کی شادی ایک پاگل طالب سے کر دی جائے گی۔ یہ سزائے موت نہیں لیکن عمر قید کے مانند ضرور ہے۔‘
بی بی سی اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کر رہا تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھیں ایسے پیغامات آئے ہیں۔
بی بی سی ریڈیو فور کے ٹوڈے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے انھیں اور ان کی والدہ کو بتایا تھا کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر ان کی بہن کو شادی کے لیے لے جائیں گے۔
‘وہ ایک جنگی قیدی کی طرح ہوگی۔ وہ ابھی تک پورے جملے تک نہیں بول سکتی، اسے سکول میں ہونا چاہیے۔ لیکن وہ کہہ رہے ہیں اسے سکول میں نہیں ہونا چاہیے، اس کی شادی کر دینی چاہیے۔‘
اگرچہ اس شخص کو سکالرشپ دینے والے ادارے کی جانب سے ای میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے قریبی خاندان والوں سمیت برطانیہ آ سکتے ہیں تاہم کابل کے ہوائی اڈے پر افراتفری کی وجہ سے وہ اپنی ماں اور بہن کو ساتھ لانے کا ‘خطرہ’ مول نہیں کے سکے۔
ہوائی اڈے پر دلخراش مناظر تھے جب امریکہ اور اس کے اتحادی، بشمول برطانیہ، 31 اگست کی ڈیڈ لائن سے پہلے اپنے شہریوں اور افغانستان سے نکلنے کے لیے اہل افغانوں کے انخلا کی کوششیں کر رہے تھے۔
کچھ لوگ امریکی فوجی طیاروں سے لٹکنے کے بعد موت کے منھ میں چلے گئے اور 26 اگست کو ہوائی اڈے کے باہر ایک خودکش بم حملے کے بعد سکیورٹی مزید بڑھا دی گئی جس میں 170 شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
ہلاک شدگان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو شہر سے نکلنے والے طیاروں میں سوار ہونے کی امید کر رہے تھے۔
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت یہ سکالرشپ حاصل کرنے والے طلبا کو افغانستان سے باہر نکالنے میں مدد کر رہی ہے۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم برطانوی شہریوں اور ملک سے نکلنے کے اہل افغانوں کو محفوظ طریقے سے باہر نکالنے کے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھیں گے۔’
تاہم سکالرشپ پر برطانیہ آنے والے شخص کا خیال ہے کہ طالبان انھیں ملک میں ان کی کاروباری سرگرمیوں کی سزا دے رہے ہیں۔
‘مجھے واٹس ایپ کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ مجھے برطانوی فوج نے ملک سے نکالا ہے کیونکہ میں ان کا ایجنٹ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے لیکن میرے خاندان کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔‘
‘طالبان سمجھتے ہیں کہ اگر آپ کا بین الاقوامی برادری سے تعلق ہے تو آپ ملک کی اسلامی ثقافتی اقدار کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ وہ بدلہ لینے کے لیے کچھ بھی کریں گے، وہ بے رحم ہیں۔ وہ ان لوگوں کے خاندانوں کو خوف زدہ کر رہے ہیں جو ہمارے معاشرے کے لیے کچھ اچھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
اس شخص کا کہنا تھا کہ اسے سو فیصد یقین ہے کہ اس کی بہن کو اگلے مہینے میں لے جایا جائے گا اور اگر وہ اپنی ماں، بہن اور بھائیوں کو برطانیہ نہیں لا پائے تو اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ وہ ‘پرامید’ ہیں کہ شاید وہ اپنے خاندان کو برطانیہ لا پائیں گے جیسا کہ کچھ دوسرے شیوننگ اسکالرز کے لیے ممکن ہو پایا۔لیکن انہیں ابھی تک حکومت کی طرف سے ‘مثبت جواب’ نہیں ملا ہے۔
برطانوی حکومت افغان شہری آباد کاری سکیم کی تیار کر رہی ہے۔ پہلے سال میں 5000 افغان پناہ گزین لیے جائیں گے جبکہ طویل مدتی سلسلے میں 20،000 پناہ گزینوں کو برطانیہ لانے کا منصوبہ ہے۔