پاکستان کے سابق فوجی افسران کے نام بھی پنڈورا پیپرز میں شامل

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) تحقیقاتی صحافت میں معروف صحافیوں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) ‘پاناما پیپرز’ کے بعد ایک اور بڑے مالیاتی اسکینڈل ‘پینڈورا پیپرز’ کو سامنے لے آئی ہے جس میں پاکستان سمیت دنیا کے متعدد موجودہ و سابق سربراہان مملکت، سیاست دانوں، صنعت کاروں، بیورو کریٹس، ریٹائرڈ فوجی افسران کی آف شور کمپنیوں کی مبینہ ملکیت بتائی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے فوری ردعمل میں ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ان کی حکومت ان تمام شہریوں کی جانچ پڑتال کرے گی جن کے نام ‘پینڈورا پیپرز’ میں آئے ہیں۔

​مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی دنیا کی مختلف 14 کمپنیوں کی لگ بھگ ایک کروڑ 20 لاکھ فائلز کے ایک جائزے کے مطابق 200 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کی بیرونِ ملک خفیہ دولت کی تفصیلات کا انکشاف ہوا ہے۔

آئی سی آئی جے کی طرف سے جاری کردہ اس تفصیلی رپورٹ میں پاکستان کے سیاست دان، بیورو کریٹس، کاروباری شخصیات اور فوجی افسران سمیت 700 پاکستانیوں کے نام بھی ان پیپرز میں شامل ہیں۔

پاکستانی وقت کے مطابق اتوار کی شب ساڑھے نو بجے آئی سی آئی جے نے اس حوالے سے اپنی ویب سائٹ پر ’پینڈورا پیپرز‘ کے عنوان سے تفصیلات جاری کیں جن پر 117 ممالک سے تعلق رکھنے والے 600 صحافیوں نے دو سال تک کام کیا تھا۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے، جو اسی کنسورشیم کی طرف سے سال 2016 میں جاری کردہ پاناما پیپرز پر اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے ہیں اور سخت احتساب اور منی ٹریل کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، کہا ہے کہ پینڈورا پیپرز میں جن پاکستانی شخصیات کی آف شور کمپنیوں کا نام آیا ہے وہ ان کے معاملات کی تحقیقات کرائیں گے۔

ان کے بقول “میری حکومت اپنے ان تمام شہریوں کی پڑتال کرے گی جن کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں اور اگر کچھ غلط ثابت ہوا تو ہم مناسب کارروائی عمل میں لائیں گے۔ عالمی برادری سے میری التماس ہے کہ ماحولیاتی تغیرات کے بحران کی طرح اس صریح ناانصافی کے تدارک کا بھی بدرجہ اتم اہتمام کیا جائے۔”

پاکستان میں حزبِ اختلاف کے رہنما بھی وزیرِ اعظم عمران خان کو اس موقع پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ ان کی آنکھ کے نیچے ان کی کابینہ میں شامل لوگ، ان کے بقول پیسہ بنانے اور اسے ملک سے باہر منتقل کرنے میں مصروف رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے اپنی ایک ٹوئٹ میں طنزاً کہا کہ “مگر پھر بھی کپتان ایماندار، صادق اور امین ہے، کیا کہنے”

پنڈورا پیپرز میں 200 سے زائد ممالک کی 29000 آف شور کمپنیوں کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں، ان آف شور کمپنیوں کی ملکیت 45 ممالک سے تعلق رکھنے والی 130 ارب پتی شخصیات کے پاس ہے۔

لیکن تنظیم نے اس بات کی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں کہ اسے یہ معلومات یا ڈیٹا کس طرح حاصل ہوا۔

آئی سی آئی جے کے مطابق پینڈورا پیپرز میں 14 آف شور سروس فرمز شامل ہیں، پینڈورا پیپرز کے لیے آئی سی آئی جے نے تقریباً تین ٹیرا بائٹس کی خفیہ معلومات حاصل کیں۔

اس کا نام پنڈورا پیپرز کیوں پڑا؟

اس تحقیقات کا عنوان ‘پینڈورا پیپرز’ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں اشرافیہ کے خفیہ لین دین اور مجموعی طور پر کھربوں ڈالر کی جائیدادوں کو آف شور اکاؤنٹس کے ذریعے چھپانے کی کوششوں کو طشت از بام کیا گیا ہے۔

یہ بنیادی طور پر یونانی روایات سے اخذ کردہ نام ہے اور اس سے ایک ضرب المثل ‘پینڈورا بکس کھولنا’ انگریزی اور اب اردو میں بھی رائج ہے۔ اس سے مراد کسی ایسی چیز کو سامنے لانا ہے جو کئی لوگوں کے لیے مسائل کا سبب بن سکتی ہو۔

واضح رہے کہ آئی سی آئی جے اس سے قبل 2016 میں بھی دنیا کے سیکڑوں عالمی رہنماؤں، سیاست دانوں، کاروباری افراد، جرائم پیشہ افراد اور مختلف شعبوں کی معروف شخصیات کے مالیاتی اثاثوں کے بارے میں ‘پاناما پیپرز’ کے نام سے تفصیلات سامنے لاچکی ہے۔

پنڈورا پیپرز میں پاکستانیوں کے نام

پنڈورا پیپرز کی تیاری کے لیے پاکستان سے دو صحافی اس عمل میں شامل رہے، جن میں پاناما پیپرز پر کام کرنے والے عمر چیمہ اور مقامی انگریزی اخبار ‘دی نیوز’ کے نمائندے فخر درانی شامل ہیں۔

آئی سی آئی جے کی طرف سے جاری ہونے والی فہرست کے مطابق ان پیپرز میں 700 پاکستانی باشندے بھی شامل ہیں جن کی بیرونِ ملک آف شور کمپنیاں ہیں۔

ان افراد میں شامل نمایاں ناموں میں موجودہ وزیرِ خزانہ شوکت ترین، سینیٹر فیصل واوڈا، وفاقی وزیر مونس الہیٰ، پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن، مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار کے صاحبزادے علی ڈار، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی عمر بختیار، راجہ نادر پرویز، سینئر وزیر عبدالعلیم خان، سابق معاون خصوصی وزیراعظم وقار مسعود کے بیٹے کا نام بھی شامل ہے۔

پیپرز کے مطابق ابراج گروپ کے سی ای او عارف نقوی، بول ٹی وی اور ایگزٹ کمپنی کے مالک شعیب شیخ، نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر عدنان آفریدی، ٹریڈر بشیر داؤد، نیشنل بینک کے صدر عارف عثمانی، امپریل شوگر مل کے مالک نوید مغیث شیخ سمیت متعدد بینکاروں کے نام موجود ہیں۔

سابق فوجی افسران کے نام بھی پنڈورا پیپرز میں شامل

پاکستان فوج کے سابق افسران یا ان کے اہلِ خانہ کے نام بھی پنڈورا پیپرز میں سامنے آئے ہیں۔

پاکستان فضائیہ کے سابق سربراہ عباس خٹک کے دو صاحبزادوں کے علاوہ، لیفٹیننٹ جنرل (ر) شفاعت اللہ، میجر جنرل (ر) نصرت نعیم اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل مظفر کے صاحبزادے، جنرل (ر) خالد مقبول کے داماد احسن لطیف، زہرہ تنویر اہلیہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) تنویر طاہر، کرنل (ر) راجہ نادر پرویز اور جنرل (ر) علی قلی خان کی ہمشیرہ کی بھی آف شور کمپنیاں ہیں۔

پینڈورا پیپرز میں عالمی رہنماؤں کے نام

آئی سی آئی جے کے مطابق پینڈورا پیپرز میں 90 سے زائد ممالک اور علاقوں کے 330 سے زائد موجودہ اور سابق سیاست دانوں سے متعلق تفصیلات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں کئی موجودہ و سابق سربراہان مملکت اور ان کے قریبی ساتھیوں کے نام بھی ہیں۔

پینڈورا پیپرز میں اُردن کے بادشاہ عبداللہ دوم، برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر، چیک ری پبلک کے وزیرِ اعظم آندرے بابس، کینیا کے صدر اہورو کنیاتا کے نام شامل ہے۔

اس کے علاوہ روسی صدر کے سابق متعلقین اور پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت میں شامل افراد اور سابق قریبی ساتھیوں کے نام بھی پینڈورا پیپرز میں شامل ہیں۔

فہرست میں قطر کے سابق امیر شیخ صباح الاحمد الصباح، قطر کے سابق وزیرِ اعظم حماد بن جاسم التھانی، بحرین اور موزمبیق کے سابق وزرائے اعظم، اردن کے دو سابق وزرائے اعظم، ایل سلواڈور کے دو سابق صدور، پاناما کے چار سابق صدور اور لبنان کے سابق وزیرِ اعظم حسن دیاب کے نام بھی شامل ہیں۔

معروف شخصیات کے نام بھی پنڈورا پیپرز میں شامل
سیاست دانوں کے علاوہ پینڈورا پیپرز میں کولمبیا سے تعلق رکھنے والی معروف گلو کارہ شکیرا، بھارت کے لیجنڈ کرکٹر سچن ٹنڈولکر اور جرمن سپر ماڈل کلاڈیا سکفر کے نام بھی شامل ہیں۔

آئی سی آئی جے کے مطابق ٹنڈولکر کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کی سرمایہ کاری قانونی ہے اور اس کے بارے میں ٹیکس حکام کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔

گلوکارہ شکیرا کے وکیل کے مطابق ان کی موکل اپنی کمپنیاں ظاہر کرچکی ہیں۔ لیکن وکیل نے اس سے ہونے والے ٹیکس کے فوائد کی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔

اسی طرح جرمن سکیفر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں، جہاں وہ رہائش پذیر ہیں، تمام ٹیکس ادا کیے ہیں۔

دنیا کے امیر ترین افراد کے نام بھی شامل

امریکی بزنس میگزین فوربس کے مطابق پینڈورا پیپرز میں جن 29 ہزار آف شور کمپنیوں کی تفصیلات دی گئی ہیں ان میں جریدے کی ارب پتی افراد کی جاری کردہ فہرست میں سے شامل 130 افراد کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے جریدے کا کہنا ہے کہ پینڈورا پیپرز میں سب سے زیادہ تفصیلات امریکہ کے ارب پتی سرمایہ کار رابرٹ ایف اسمتھ کے بارے میں ہیں۔ رابرٹ اسمتھ امیر ترین سیاہ فام امریکی ہیں اور وہ گزشتہ برس آف شور فنڈز پر ٹیکس نہ دینے کی وجہ سے 14 کروڑ ڈالر کا جرمانہ بھی دے چکے ہیں۔

پینڈورا پیپرز میں ترکی کے تعمیراتی شعبے کے نمایاں ترین سرمایہ کار ارمان الیجاک، سافٹ ویئر بنانے والی امریکی کمپنی رینولڈز اینڈ رینولڈز کے سابق سی ای او رابرٹ ٹی بروکمین اور بھارتی صنعت کار انیل امبانی کا نام بھی شامل ہے۔

پینڈورا اور پاناما پیپرز

آئی سی آئی جے کا دعویٰ ہے کہ پینڈورا پیپرز تاریخ کی سب سے بڑی مشترکہ صحافتی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق پینڈورا پیپرز 2016 میں آئی سی آئی جے کے جاری کردہ پاناما پیپرز سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر تفصیلات سامنے لائے ہیں۔

آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ پینڈورا پیپرز کے لیے لگ بھگ تین ٹیرا بائٹس کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ ڈیٹا کسی اسمارٹ فون سے لی گئی ساڑھے سات لاکھ تصاویر کے حجم جتنا بنتا ہے۔

یہ ڈیٹا دنیا بھر میں مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی 14 کمپنیوں کا ہے جو دنیا کے مختلف 38 ممالک کی حدود میں واقع ہے۔ جس کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں 1970 کی دہائی کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔ البتہ 1996 سے 2020 کے دورانیے کی دستاویزات تحقیقات کا محور رہی ہیں۔

اس سے قبل جاری ہونے والے پاناما پیپرز کے ڈیٹا کا کل حجم دو اعشاریہ چھ ٹیرا بائٹس تھا۔ یہ ڈیٹا پاناما میں قائم لا فرم موزیک فونسیکا کے لیک ہونے والی معلومات پر مشتمل تھا۔ یہ کمپنی چوں کہ پاناما میں تھی اس لیے منظر عام پر لائی گئی دستاویزات کو پاناما پیپرز’ کا نام دیا گیا تھا۔

آف شور کمپنیاں کہاں کہاں ہیں؟

حالیہ تحقیقات میں آف شور کمپنیوں کے لیے محفوظ تصور ہونے والے برٹش ورجن آئی لینڈ، شیل، ہانگ کانگ اور بیلز کے نام شامل ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بنائے گئے خفیہ اکاؤنٹس اور ٹرسٹس کی تفصیلات بھی سامنے لائی گئی ہیں۔

امریکہ کی ریاست ساؤتھ ڈکوٹا میں 81 اور فلوریڈا میں ایسے 37 ٹرسٹ شامل ہیں جن کے ذریعے اثاثے خریدے گئے۔

‘اے ایف پی’ کے مطابق آئی سی آئی جے کی مشترکہ تحقیقات سے ماضی میں وابستہ رہنے والے فرانسیسی صحافی میکزم واودانو کا کہنا ہے کہ پینڈورا پیپرز میں جن سیاست دانوں کی تفصیلات سامنے لائی گئی ہیں ان کی تعداد پاناما پیپرز کے مقابلے میں دگنی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک پہلو ان حالیہ تفصیلات کو پاناما سے مختلف بناتا ہے کہ ان میں ٹیکس سے بچنے کی ایسی محفوظ پناہ گاہوں یا ٹیکس ہیونز کے نام بھی سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں ہم اس سے پہلے بہت کچھ نہیں جانتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ برمودا یا بہاماس میں ہونے والی اصلاحات کے بعد ساؤتھ ڈکوٹا ایک بڑے ٹیکس ہیون کے طور پر سامنے آئی ہے۔

کیا تمام جائیدادیں غیر قانونی ہیں؟

پینڈورا پیپرز جاری کرنے والی تنظیم آئی سی آئی جے کا مؤقف ہے کہ اکثر ممالک میں آف شور یا شیل کمپنیوں سے کاروبار کرنا غیر قانونی نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر کاروبار کرنے والے لوگ اپنے مالیاتی امور چلانے کے لیے آف شور کمپنیوں کو اپنی ضرورت قرار دیتے ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ہی آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ اس رعایت کی وجہ سے عام طور پر لوگ اپنے اثاثے جو انہوں نے زیادہ ٹیکس وصول کرنے والے ممالک سے کمائے ہوتے ہیں، انہیں صرف کاغذی کمپنیوں کے ذریعے دوسری جگہ منتقل کر دیتے ہیں۔

آئی سی آئی جے کے مطابق خاص طور پر سیاسی شخصیات کا آف شور کمپنیوں کی آڑ لینا اس لیے متنازع ہے کہ ان کے ذریعے ایسی سرگرمیوں کو بھی عوام کی نگاہوں سے اوجھل رکھ سکتے ہیں جو عام طور ناقابلِ قبول ہوں یا غیر قانونی ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں