کابل + لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) بی بی سی کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان منظم انداز میں ہزارہ اقلیت کے سینکڑوں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کر رہے ہیں۔
https://twitter.com/BamiyanLove/status/1445796892890345474?t=9JuvlBDvIWwcJt40pnSxFw&s=19
تحقیق کے مطابق گذشتہ ماہ کے اوائل سے اب تک وسطیٰ افغانستان کے صوبے دایکندی کے مخلتف علاقوں سے 22 سو سے زیادہ افراد کو اُن کے گھروں سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ ہزارہ برادری کے لوگ یہاں غیرقانونی طور پر رہ رہے تھے، لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے ان خاندانوں کے پاس زمین کی ملکیت کے دستاویزات موجود تھیں۔
.@amnesty's @dinushikad1 reacts to the Taliban's denial of its report on the killing of 13 #Hazara people in #Afghanistan: "We have attempted to reach the Taliban before…we never received a response, & for them to now say this is not transparent, is not acceptable in our view." pic.twitter.com/d1IqecUT6I
— Yalda Hakim (@SkyYaldaHakim) October 6, 2021
کہا جا رہا ہے کہ بے دخلی کی اس مہم کے نتیجے میں اب تک چار ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
مختلف مقامات سے زبردستی انخلا کے بعد اس خوف میں اضافہ ہوا کہ طالبان ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ملک کی شیعہ ہزارہ اقلیت کو نشانہ بنانے جا رہے ہیں۔
گذشتہ روز انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا تھا کہ انھیں بھی اس بات کے ثبوت ملے ہیں کہ اگست میں طالبان نے دیکندی میں ایک نوجوان لڑکی سمیت 11 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
تنظیم کے مطابق ان میں نو افراد سابقہ حکومت میں فوج کے اہلکار تھے جنھوں نے کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اُن کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ہزارہ اقلیت کا یہ قتل عام جنگی جرائم کے مترادف ہو سکتا ہے۔
لیکن طالبان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ نے ’یک طرفہ‘ کہانی بیان کی ہے۔
ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر مارے گئے 11 افراد میں ایک 17 سالہ لڑکی بھی شامل تھی جو اطلاعات کے مطابق اس وقت گولی کا نشانہ بنی جب طالبان نے سابقہ فوجیوں کے خاندان والوں پر فائرنگ کی۔ یہ عام شہری اس وقت علاقے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایمنسٹی انٹرینشنل کی سیکریٹری جنرل ایگنس کیلامار کا کہنا ہے کہ ’قتل کی یہ سفاکانہ کارروائیاں اس بات کا مزید ثبوت ہیں کہ طالبان اس قسم کے خوفناک مظالم کا ارتکاب کر رہے ہیں جو انھوں نے اپنے سابقہ دور حکومت میں کیے تھے۔ طالبان کہتے ہیں کہ وہ گذشتہ حکومت سے وابستہ ملازمین اور اہلکاروں کو نشانہ نہیں بنا رہے، لیکن یہ ہلاکتیں ان کے دعوؤں کی نفی کرتی ہیں۔‘
اس سے قبل اگست میں بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان نے جولائی میں غزنی کے صوبے میں ہزارہ برادری کے نو افراد کا ’قتلِ عام‘ کیا تھا۔
اس پر طالبان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے بی بی سی بات کرتے ہوئے تھا کہ ’یہ رپورٹ یکطرفہ ہے اور تمام بین الاقوامی تنظیموں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ افغانستان آ کر (ان الزامات) کی باقاعدہ تفتیش کریں۔ یہ ایک ناقابل قبول بات ہے اور اس میں (کوئی) شفافیت نہیں ہے۔‘