کابل اور اسلام آباد کے درمیان پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) اور کام ایئر کی پروازوں کی زیادہ قیمت میں ٹکٹوں کی فروخت پر طالبان حکام نے جمعرات کو دونوں فضائی سروسز کو کابل ایئرپورٹ پر آپریشنز کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
اس کے فوراً بعد اسلام آباد میں پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے بی بی سی کو بتایا کہ پی آئی اے نے کابل کے لیے اپنی سروسز معطل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
کابل میں طالبان ترجمان اور نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹویٹ میں یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب پیر کو بعض افغان مسافروں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ کابل سے اسلام آباد تک پی آئی اے کے ایک طرفہ ٹکٹ کی قیمت 2500 ڈالر بتائی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ کابل میں موجود ایک افغان خاندان کے مطابق اُن کے پاس پاکستانی ویزا ہے لیکن طورخم سے پاکستان جانے نہیں دیا جا رہا اور پی آئی اے کے ایک طرفہ ٹکٹ کی قیمت 2500 ڈالر تک بتائی جا رہی ہے۔
کابل سے اسلام آباد کے ٹکٹ اگست میں جو قیمتیں تھی اس سے دس گنا مہنگی ہوگئی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغان وزارت ٹراسپورٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ٹکٹوں کو ’اسی قیمت پر لایا جائے جو اسلامی امارات کی فتح سے پہلے تھی یعنی کہ 120 سے 150 ڈالر کے درمیان‘۔
جب پی آئی اے ترجمان سے پوچھا گیا کہ کابل سے اسلام آباد تک کے ٹکٹ اتنے مہنگے کیوں ہوئے ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ سقوط کابل کے بعد اب افغانستان جنگ زدہ علاقہ قرار دیا جا چکا ہے جس کی وجہ سے فلائٹ انسورنش پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے اور ٹکٹوں کی قیمتوں کے بڑھنے کی یہی بنیادی وجہ ہے۔
اُن کے مطابق ’صرف ایک پرواز کی انشورنس ساڑھے چار لاکھ ڈالر ہے جس کی وجہ سے ٹکٹوں کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔‘
کابل پر طالبان کنٹرول کے تقریباً ایک ہفتے بعد پی آئی اے نے اسلام آباد سے کابل اور کابل سے اسلام آباد اپنے آپریشنز بحال کیے تھے جس کے بعد افغانستان کی نجی ائیر لائن کام ائیر نے بھی پروازیں شروع کر دی تھیں۔
لیکن کابل اور اسلام آباد میں دونوں ایئرلائنز کے مطابق ’فلائٹ انشورنس‘ کی قیمت میں کئی گناہ اضافے کی وجہ سے مسافروں کو کم قیمت میں ٹکٹ فروخت کرنا ناممکن ہے۔
پیر کو کابل میں کام ایئر کے حکام نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ پاکستانی حکام نے اُن کی پروازوں کو پاکستان آنے سے منع کیا ہے، تاہم پاکستانی سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) حکام نے منگل کو اس بات کی تردید کی تھی کہ اُن کی جانب سے کام ایئر کی پروازوں کو بند کیا گیا ہے۔
کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان کی فضائی حدود کو ’ Uncontrolled Airspace‘ قرار دیا جا چکا ہے اور اسلام آباد سے کابل اور کابل سے اسلام آباد روٹ پر جانے والی فلائٹس کی انشورنس میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے پی آئی اے نے ٹکٹوں کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔
اس سے پہلے پی آئی اے ذرائع نے کابل میں ہوائی اڈے کے منتظمین پر الزام لگایا تھا کہ جان بوجھ کر پی آئی اے کی پروازوں کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پی آئی اے کو انشورنس کی مد میں لاکھوں ڈالرز کا نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔
پی آئی اے ترجمان کے مطابق کابل میں افغان حکام پی آئی اے سٹاف سے انتہائی غیر پیشہ ورانہ طریقے سے پیش آتے تھے اور جان بوجھ کر پی آئی اے کی پروازوں کا وقت ضائع کرتے تھے۔
ملک چھوڑنے والے افغانوں پر سارے راستے بند
پی آئی اے کی پروازوں کی بندش کے بعد اب کابل سے باہر نکلنے والے سارے راستے بند ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں افغانوں کو مشکلات درپیش ہیں۔
ان میں سے بیشتر وہ افغان ہیں جو طالبان کے خوف سے اپنا ملک چھوڑنا چاہتے تھے اور اب اُن کے لیے ملک سے باہر جانے کے سارے راستے بند ہو گئے ہیں۔
اس سے پہلے طورخم کے ذریعے بعض افغان پاکستان کی طرف آ گئے تھے لیکن طورخم میں پاکستانی حکام پر ’رشوت کے الزامات کے بعد‘ وزیرِ اعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ آنے والے افغانوں سے ’گیٹ پاس‘ کے نام پر کچھ نہیں لیا جائے گا اور صرف پاکستانی ویزے پر ہی آنے دیا جائے گا۔
تاہم طورخم میں موجود ایک افغان نوجوان عتیق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وزیراعظم عمران خان کے اس اعلان کے بعد طورخم کا دروازہ مکمل طور پر افغانوں کے لیے بند ہو گیا ہے۔‘
اُن کے مطابق اُن کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ایسے افغان ہیں جن کے پاس پاکستانی ویزے ہیں لیکن طورخم دروازے پر اُنھیں پاکستان جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔
مہنگے ٹکٹ پر افغان پاکستان سے ناراض
اس سے پہلے کئی افغان پی آئی اے پروازوں کے ذریعے کابل سے اسلام آباد پہنچے، لیکن مہنگے ٹکٹوں پر وہ پاکستان سے نالاں بھی نظر آئے۔ مسکا نامی ایک افغان خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن اس مشکل میں ایک طرف ہم پر بارڈر بند کر دیا گیا ہے تو دوسری جانب پی آئی اے کئی گنا زیادہ قیمت پر ٹکٹیں فروخت کر رہا ہے۔‘
مسکا کے مطابق اُنھوں نے کچھ عرصہ قبل 1500 ڈالر پر پی آئی اے کا ایک ٹکٹ حاصل کیا تھا اور اسی پر اسلام آباد آئی ہیں۔
اسلام آباد آنے والے ایک اور افغان نے شکایت کرتے ہوئے کہا پاکستان اس وقت بھی اُن پر ’کاروبار کر رہا ہے‘ اور ہر طرف سے اُن سے ’پیسے بٹورے جا رہے ہیں‘۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس افغان شہری نے مزید بتایا کہ ’افغانستان میں حالات کی خرابی کے بعد ہماری نظریں پاکستان کی طرف تھیں، لیکن پاکستان نے ہمارے ساتھ اس مشکل دور میں کچھ نہیں کیا۔‘
تاہم اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں موجود رضا نامی ایک اور افغان نے پیر کو بی بی سی کو بتایا کہ ’جنگی حالات میں ایسے ہی ہر چیز کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے اور وہ خود اس لیے بھی پاکستانی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس مشکل حالت میں بھی وہ کم از کم ملک سے نکلنے میں مدد تو کر رہے ہیں۔‘