بیجنگ (ڈیلی اردو/بی بی سی) چین نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ اس نے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے، آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز میزائل کا چند مہینے قبل تجربہ کیا ہے اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ یہ خلائی جہاز کا ایک معمول کا تجربہ تھا۔
بین الاقوامی جریدے ‘فائنینشل ٹائمز’ کے مطابق امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں اس خبر سے تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی تھی جہاں امریکہ کے خفیہ اداروں کو اس بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی اور وہ یہ جان کر حیران رہ گئے تھے۔
ہائپرسانک میزائل عام میزائلوں کے مقابلے میں انتہائی تیز رفتار اور سبک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا توڑ کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
اس خبر سے چین کی جوہری صلاحیت کے بارے میں پہلے سے پائی جانے والی تشویش میں مزید زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاو لیجان نے سوموار کو ذرائع ابلاغ کو ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ اس سال جولائی میں ایک معمول کا تجربہ کیا گیا تھا جس میں مختلف قسم کی دوبارہ قابل استعمال خلائی ٹیکنالوجی کو جانچا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ‘یہ میزائیل نہیں تھا بلکہ ایک خلائی جہاز تھا۔’ ‘خلائی جہازوں پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرنے میں اس کی بہت اہمیت تھی۔’
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بہت سے دوسرے ممالک بھی اس نوعیت کے تجربات کر چکے ہیں۔ فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر کہ کیا یہ رپورٹ درست نہیں ہے تو انھوں نے کہا ہاں۔
ہفتے کو شائع ہونے والی رپورٹ میں چار ذرائع کا نام ظاہر کیے بغیر حوالہ دیا گیا تھا جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہائپرسانک میزائل کو گرمیوں میں داغا گیا تھا۔ یہ میزائل خلائی مدار میں چکر لگا کر زمین کی طرف آیا اور وہ اپنے ہدف سے معمولی سی دوری پر ٹکرایا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ چین کی طرف سے اس ٹیسٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے اس شعبے میں حیران کن ترقی کی ہے جو امریکی حکام کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔
کانگریس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا کہ یہ تجربہ امریکہ کے لیے جلد اقدام کرنے کا عندیہ ہونا چاہیے۔
مائیک گیلگر جو رپبلکن جماعت کی طرف سے ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کے رکن ہیں انھوں نے کہا کہ واشنگٹن اپنی موجودہ روش کی وجہ سے چین سے جاری سرد جنگ میں صرف ایک عشرے میں ہار جائے گا۔
چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات بہت کشیدہ ہیں اور بیجنگ جو بائیڈن کی انتظامیہ پر چین کے خلاف مخاصمت رکھنے کا الزام لگاتا ہے۔
کئی مغربی ملکوں نے بھی چین کی طرف سے حالیہ فوجی طاقت کے مظاہروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
آسٹریلیا کے دفاع، قومی سلامتی اور حکمت عملی سے متعلق پالیسی ادارے کے ڈائریکٹر مائیکل شوبرج نے کہا کہ اگر ہائپرسانک میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے تو یہ جوہری اور دوسرے ہتھیاروں میں اضافے کی روش کو ظاہر کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ چین کی طرف سے میزائل داغے کے ٹھکانوں یا فضا سے جوہری ہتھیار داٰغنے یا آبدوزوں سے جوہری ہتھیار چلانے سے زیادہ خطرناک یا بڑی بات ہے۔ ‘لیکن یہ کھل یا خفیہ طور پر اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے رجحان کا حصہ ہے۔’
انھوں نے کہا کہ چین کے دفاعی پالیسی سازوں ‘شفافیت’ سے واقف نہیں ہیں۔
چین نے حالیہ فوجی پریڈ میں ایک ایسا پلیٹ فارم دکھایا تھا جو ہائپرسانک میزائل کا لگتا تھا۔
چین کے ساتھ امریکہ، روس اور کم از کم پانچ دوسرے ملک ہائپرسانک میزائل ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔
ہائپرسانک میزائل آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز ہیں جو کہ جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بلاسٹک میزائل کی طرح ہوتی ہے۔
گزشتہ ماہ شمالی کوریا نے کہا تھا کہ اس نے ایک ہائپرسانک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ جولائی کے مہینے میں روس نے اس نوعیت کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس نے سمندر سے یہ میزائل داغا تھا۔