دوشنبہ (ڈیلی اردو/وی او اے) ایک ایسے وقت میں جب کہ افغانستان کے نئے طالبان رہنماؤں اور خطے کے اہم ملکوں کے مابین سرحد پر تناؤ کے آثار نمایاں ہیں، سابق سویت دور کے کئی سال بعد پیر کو روسی زیر قیادت تاجک افغان سرحد کے نزدیک فوجی مشقیں شروع ہوئیں۔
Белорусский воинский контингент принимает участие в торжественном открытии учения с Коллективными силами оперативного реагирования ОДКБ «Боевое братство – 2021» на полигоне «Харбмайдон» в Таджикистане. pic.twitter.com/A90gYWmxJX
— Минобороны Беларуси (@MOD_BY) October 18, 2021
لگتا یوں ہے کہ افغانستان کے دیگر شمالی ہمسایوں نے طالبان کی قیادت کو فی الواقع حقیقت کے طور پر تسلیم کر کے کابل کے ساتھ کام چلانے کا آغاز کر دیا ہے، جب کہ تاجکستان نے طالبان کی شدت پسند تحریک کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، اور اطلاعات کے مطابق سرحد کے دونوں جانب فوجی تعینات کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔
На полигоне «Харбмайдон» в Таджикистане продолжается учение с Коллективными силами оперативного реагирования ОДКБ «Боевое братство – 2021», в рамках которого проводится учение разведывательных подразделений ОДКБ «Поиск-2021».https://t.co/BQyeqxgd4J pic.twitter.com/PVZC1kiwlK
— Минобороны Беларуси (@MOD_BY) October 19, 2021
تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ سے رائٹرز کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ فوجی مشقیں ‘کلیکٹو سیکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او) کے تحت کی جا رہی ہیں، ان میں 5000 سے زیادہ فوجی حصہ لے رہے ہیں، جن میں سے نصف کے قریب روس کے فوجی ہیں۔ خبر رساں ادارے کو یہ بات روسی اور تاجکستان کی دفاعی وزارتوں کے حکام نے بتائی ہے۔
Сводный отряд БАК 927-го центра подготовки и применения беспилотных авиационных комплексов выполняет разведывательные задачи Коллективных сил оперативного реагирования ОДКБ во время учения «Боевое братство – 2021». pic.twitter.com/TJiABuNdu3
— Минобороны Беларуси (@MOD_BY) October 19, 2021
ان چھ روزہ فوجی مشقوں سے قبل روس اور اس کے وسط ایشیائی اتحادی اگست اور ستمبر میں اس سے کچھ کم سطح کی مشقیں کر چکے ہیں۔
روس کو یہ پریشانی ہے کہ کہیں اسلامی شدت پسندی کی یہ تحریک سابق سویت یونین کی وسط ایشیائی ریاستوں تک نہ پھیل جائے، جنھیں روس جنوبی خطے کی اپنی دفاعی سرحدیں خیال کرتا ہے۔
سویت دور کے اس سابق ساتھی ملک میں روس کا ایک فوجی اڈا موجود ہے اور تاجکستان نے اسے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ سرحد پار سے کسی حملے کی صورت میں وہ روس کی مدد کے لیے تیار ہے۔
ادھر اسی ہفتے روس میں منعقد ہونے والے مذاکرات میں طالبان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد ماسکو جانے کے لیے تیار ہے، جس میں چین، پاکستان، بھارت اور ایران شرکت کریں گے، جب کہ ایک اعلیٰ روسی عہدے دار کہہ چکے ہیں کہ انھیں اس اجلاس سے کسی قسم کی پیش رفت کی کوئی توقع نہیں ہے۔
افغانستان سے متعلق روس کے نمائندہ خصوصی، ضمیر کابلوف نے یہ بھی کہا ہے کہ منگل کے روز روس، امریکہ، چین اور پاکستان کے عہدے دار ماسکو میں علیحدہ ملاقات کریں گے جس میں افغانستان کی بدلتی ہوئی صورت حال کے بارے میں متحدہ موقف اپنانے سے متعلق تجویز زیر غور لائی جائے گی۔