پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کی حکومت نے لگ بھگ چھ ماہ کی بندش کے بعد طورخم کی سرحدی گزرگاہ سے افغانستان آمد و رفت مکمل طور پر بحال کر دی ہے۔ سرحدی گزرگاہ کھلنے کا اعلان پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کابل کے دورے دوران جمعرات کی شام کیا تھا۔
سرحد کی بندش کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے احتجاجی دھرنا بھی دیا جا رہا تھا۔ جسے بارڈرکراسنگ کھلنے کے بعد ختم کر دیا گیا ہے۔
سرحدی گزرگاہ کھلنے کے اعلان ہونے کے چند گھنٹوں بعد سینکڑوں افغان شہری پاکستان آنے کے لیے طورخم کی سرحد پر جمع ہو گئے تھے۔
طورخم میں موجود پاکستانی حکام کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق جمعرات کو 240 افغان شہری اور 108 پاکستانی اس راستے سے پاکستان آئے۔
ایک روز قبل پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی وفد کے ہمراہ افغانستان پہنچے تھے۔ ان کے وفد میں خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ سمیت دیگر اعلیٰ حکام شامل تھے۔ انہوں نے وفد کے ہمراہ طالبان کی عبوری حکومت کے وزیرِ اعظم ملا محمد حسن اخوند اور دیگر رہنماؤں سے ملاقات کی۔ جب کہ سابق صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقاتیں کیں۔
ان ملاقاتوں میں دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں سرِ فہرست معاملہ سرحدی گزرگاہوں پر عائد پابندیاں اور رکاوٹیں تھا جس کی تصدیق وزیرِ خارجہ نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کی۔
طورخم میں موجود تاجروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعے کی صبح طورخم کے اس پار ہزاروں کی تعداد میں لوگ پاکستان میں داخل ہونے کے لیے جمع ہو گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے پاکستان آنے والے افراد کو ایک ایک کر کے سرحد عبور کرنے دی جاتی ہے۔ پاکستان کی حدود میں مختلف سرکاری محکموں کے عملے کی مبینہ کمی سے مسافروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال میں زیادہ وقت لگ رہا ہے۔
طورخم میں موجود افغان تاجر احمد شاہ نے کہا کہ طورخم میں پاکستان کے سرکاری اداروں کے عملے کی کمی اور ناکافی سہولیات کی وجہ سے افغانستان کے شہریوں کو مشکل پیش آ رہی ہے۔
ان کے مطابق ویزہ اور پاسپورٹ سمیت دیگر کاغذات پورے نہ ہونے پر لوگوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں عرصۂ دراز سے ایک ہی پاسپورٹ میں والدین کے ساتھ بچوں کے نام درج ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بعض پاسپورٹس میں بچوں کے ناموں میں کمی پر بھی پورے خاندان کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔
سرحدی گزرگاہ کی بندش سے اس علاقے کی بستیوں کے مزدور، دکان دار اور ڈرائیور معاشی طور پر متاثر ہو رہے تھے۔
سرحد کی بندش کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے احتجاجی دھرنا بھی دیا جا رہا تھا۔
مزدوروں کی انجمن کے سیکرٹری جنرل فرمان شنواری نے بتایا کہ سرحدی گزرگاہ کی بندش کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ البتہ افغانستان کی جانب سے رش کے باعث ابھی آمد و رفت مکمل طور پر بحال نہیں ہوئی۔
فرمان شنواری کا کہنا تھا کہ طورخم پر دو طرفہ آمد و رفت شروع ہونے کے بعد انہوں نے احتجاجی دھرنا ختم کر دیا ہے۔
سرحدی قصبے لنڈی کوتل کے اسسٹنٹ کمشنر اکبر افتخار نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ پاسپورٹ پر ویزہ کے حامل افغان شہری طورخم کے راستے پاکستان آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ اسی طرح کی سفری دستاویزات رکھنے والے پاکستانی شہری افغانستان جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزارتِ داخلہ کے اعلامیے کی روشنی میں طورخم سرحد پیدل آمد و رفت کے لیے بحال کر دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طورخم سرحد کرونا وائرس کے ایس او پیز کے تحت 16 جون سے پیدل آمد و رفت کے لیے بند تھی۔
اسٹنٹ کمشنر نے کہا کہ طورخم سرحد پیدل آمد و رفت کے لیے صبح سے شام تک کھلی رہے گی۔ جب کہ سرحدی گزرگاہ تجارتی سرگرمیوں کے لیے 24 گھنٹے کھلی رہے گی۔
واضح رہے کہ دو دن قبل شمالی وزیرستان میں حکام نے غلام خان کی سرحدی گزرگاہ بحال کر دی تھی۔ تاہم حکام نے یہ نہیں بتایا کہ سرحد پار افغانستان کی حدود میں رہنے والے شہریوں کو پاکستان آنے جانے کی اجازت ہے یا نہیں۔