برسلز (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پناہ کے یورپی اسپورٹ آفس (ای اے ایس او) کی طرف سے جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد جنگجو گروہ اب بھی پاکستان میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ وہ حملے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پناہ کے امور سے متعلق یورپی یونین کی ایجنسی ای اے ایس او نے پاکستان سے یورپ آنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی صورتحال کے تناظر میں پاکستان سے متعلق کنٹری آف اوریجن انفارمیشن (EASO) رپورٹ جاری کی ہے۔
” پاکستان سکیورٹی سچوئیشن رپورٹ (اکتوبر 2021) ” کے عنوان سے جاری کی جانے والی یہ رپورٹ گزشتہ برس اکتوبر میں شائع کی جانے والی رپورٹ کا تسلسل ہے، جس میں ان دونوں برسوں کی صورتحال کو بیان کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن 2020 اور رواں سال سن 2021 کے پہلے سات مہینوں کے دوران تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ خراسان، سمیت متعدد مسلح عسکریت پسند گروہ ملک میں حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فعال یہ جنگجو گروہ اپنی کارروائیوں کے دوران ٹارگٹ کلنگ، مختلف اقسام کے آئی ای ڈیز، خودکش حملے، اغوا، دستی بم حملے، راکٹ حملے اور تخریب کاری کے دیگر طریقے اختیار کرتے ہیں۔
اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز نے 2020 میں عسکریت پسندوں کے خلاف 47 آپریشن کیے یا چھاپے مارے۔
اسی عرصے کے دوران پاکستان کے چاروں صوبوں خیبر پختونخوا، بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں ہونے والی ان کارروائیوں کے نتیجے میں 146 افراد مارے گئے، جن میں 129 عسکریت پسند اور 17 سکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔ جبکہ 2020 اور 2021 کی پہلی ششماہی کے دوران تشدد کے مختلف واقعات میں مبینہ طور پر 344 شہری ہلاک ہوئے۔
اس کے ساتھ ہی اس رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ مذکورہ مسلح گروہ ملک میں مذہبی اقلیتوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ڈیڑھ سو صفحات کی یہ رپورٹ بنیادی طور پر پناہ کے متلاشی افراد کے لیے ایک گائیڈ لائن ہے۔
اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ رپورٹنگ کی مدت کے دوران پاکستان میں احمدیوں، شیعہ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں سمیت مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ، توہین مذہب کے واقعات، جبری تبدیلی مذہب کے کیسوں اور نفرت انگیز تقاریر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اس رپورٹ کی سمری میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جولائی 2021 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے دوران پاکستان نے صورتحال کو محفوظ بنانے اور افغان مہاجرین کی نئی آمد سے بچنے کے لیے پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ نیم فوجی دستوں کی جگہ فوجی دستے بھیجے ہیں۔
رپورٹ کہتی ہے کہ 15 اگست 2021 کو دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستانی حکام نے احتیاط سے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ افغانستان میں پر امن حل کی حمایت کرتے ہیں۔ جبکہ اسی دوران ستمبر 2021 کے آغاز میں آئی ایس آئی چیف کی قیادت میں ایک پاکستانی وفد نے کابل کا دورہ کیا اور طالبان سے ملاقات کی۔
یہ رپورٹ اس بات کی وضاحت بھی کرتی ہے کہ اس رپورٹ کو لکھنے کی نئی میتھا ڈولوجی 2019 میں اختیار کی گئی ہے۔
اس کے ساتھ ہی اس رپورٹ کے آخر میں اس رپورٹ کو مرتب کرنے کے ذرائع اور اس کے طریقہ کار کے حوالے سے واضح کیا گیا ہے کہ اس سی او آئی رپورٹ کا مسودہ بیلجیئم کے سینئر او آئی یونٹ CEDOCA سے تعلق رکھنے والے کنٹری آف اوریجن انفارمیشن (COI) کے ماہر نے EASO- COI رپورٹ کے طریقہ کار کے مطابق تیار کیا تھا۔
اور EASO نے آسٹرین سینئر فار کنٹری آف اوریجن اینڈ اسائلم ریسرچ، جرمنی کے فیڈرل آفس فار مائیگریشن اینڈ ریفیوجیز، اور نیدرلینڈز کے دفتر برائے ملکی معلومات، زبان و تجزیہ اور وزارت انصاف کے ساتھ مل کر اس کا جائزہ لیا تھا۔
اس رپورٹ اس حوالے سے تشنہ لب ہے کہ اس میں جیو پولیٹیکل واقعات کا ذکر کرتے ہوئے دیگر بین الاقوامی کرداروں کی واضح نشاندہی سے گریز کیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ملک کے اندر لڑی جانے والی شدت پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مین اسٹریم پارٹیوں اور ملکی افواج کے باہم تال میل سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کی تباہی اور پھر شدت پسندوں کے لیے محفوظ سمجھے جانے والے آزاد علاقوں کی پاکستان میں آئینی طریقے سے اشتراک کی تفصیلات سے بھی صرف نظر کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ سے قبل 29 اپریل 2021 کو یورپین پارلیمینٹ نے تقریباً انہیں الزامات کی روشنی میں پاکستان کے خلاف 683 کی بھاری ترین اکثریت سے قرار داد پاس کی تھی اور یورپین کمیشن سے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کو 2014 میں دی جانی والی رعایتی تجارتی اسکیم جی ایس پی پلس کو معطل کیا جائے، اس قسم کی رپورٹیں پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں۔