اسلام آباد (ڈیلی اردو) پاکستان میں میڈیا دباؤ میں کام کر رہا ہے جس میں آزادی صحافت پر تمام محاذوں سے حملے ہو رہے ہیں اور آزادی اظہار کی جگہ مسلسل سکڑ رہی ہے۔
2 نومبر کو منائے جانے والے ’صحافیوں کے خلاف جرائم کے لیے استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن‘ کے حوالے سے جاری ہونے والی تین رپورٹس میں اس غیر معمولی صورتحال کو اجاگر کیا گیا ہے۔
پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) کی جانب سے تیار کردہ پہلی رپورٹ جس کا عنوان ’پاکستان میں میڈیا کی آن لائن ہراسمنٹ ‘ ہے، میں بتایا گیا کہ صحافیوں کو اکثر افراد کی جانب سے نفرت، دھمکیاں اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کہا گیا کہ ’کچھ صحافیوں کو آن لائن کام کرنے پر اغوا اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جہاں آن لائن ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے وہیں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون سازی کے لیے دباؤ اور آن لائن مواد کو مجرمانہ بنانا میڈیا کو ہراساں کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔
اگست 2020 میں خواتین صحافیوں نے ’سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والے حملوں‘ کے خلاف ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا جو انہوں نے برداشت کی تھیں۔
ستمبر میں سینئر صحافی اور نیوز ون کی اینکرپرسن غریدہ فاروقی اور بے نظیر شاہ کو ایک آن لائن مہم کے تحت نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ اکتوبر میں سینئر صحافی عاصمہ شیرازی، جنہوں نے بی بی سی اردو کے لیے کالم لکھا تھا، کو پی ٹی آئی کے حامیوں اور وزرا دونوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’گزشتہ سال صحافیوں کو آن لائن ڈرانے اور دھمکانے کے رجحانات کا تسلسل دیکھا گیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے قواعد ترتیب دینے پر بھی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔
پی پی ایف کی طرف سے تیار کردہ ایک اور رپورٹ، جس کا عنوان ہے ‘پاکستان میں میڈیا پر حملے جنوری-اکتوبر 2021’، میں پاکستان میں آزادی اظہار کے لیے جگہ تنگ ہونے کی مذمت کی گئی۔
پی پی ایف نے 2021 کے دوران ایک تشویشناک رجحان دیکھا جب میڈیا کے خلاف نہ صرف جسمانی حملوں کا سلسلہ جاری رہا بلکہ آزادی اظہار کو محدود کرنے کے لیے ریاستی سطح پر دباؤ میں بھی اضافہ ہوا۔
پی پی ایف نے کم از کم 27 واقعات ریکارڈ کیے جہاں میڈیا کے اہلکاروں پر ان کے کام کے سلسلے میں جسمانی طور پر حملہ کیا گیا۔
تاہم ایک مثبت پیش رفت میں 28 جون کو سندھ اسمبلی نے تاریخی ’سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ دیگر میڈیا پریکٹیشنرز بل 2021‘ منظور کیا۔
قومی اسمبلی میں ایک اور بل پیش کیا گیا لیکن اسے منظور ہونا باقی ہے۔
تیسری رپورٹ، فریڈم نیٹ ورک کی طرف سے جانب جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ پاکستان کے اینٹی سائبر کرائمز قوانین (پیکا) کی ہتک عزت کی دفعہ کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ 2019 اور 2021 کے درمیان پیکا کے خلاف بات کرنے والے دو درجن پاکستانی صحافیوں اور انفارمیشن پریکٹیشنرز میں سے 56 فیصد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔
یہ تجزیہ ان 23 صحافیوں اور انفارمیشن پریکٹیشنرز کی طرف سے فراہم کردہ ڈیٹا پر کیا گیا تھا۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ پاکستانی صحافی، آزادانہ خبروں اور تنقیدی تبصروں کو شیئر کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ آن لائن اسپیس کا استعمال کر رہے ہیں جنہیں روایتی میڈیا پر دبا دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جمہوری معاشروں کے لیے یہ ناقابل قبول ہے کہ اختلاف رائے کو جرم قرار دیا جائے اور صحافیوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور اسے فوری طور پر رکنا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے اظہار رائے کے عالمی انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی انتہائی کم ہوگئی ہے‘۔