واشنگٹن (ڈیلی اردو) امریکا نے دنیا بھر کے کارکنوں، صحافیوں، کارپوریٹ ایگزیکٹوز اور سیاستدانوں کے فون کی جاسوسی کے لیے ’پیگاسس‘ سافٹ ویئر بنانے والی اسرائیلی کمپنی کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسپائی ویئر بنانے والی کمپنی ’این ایس او‘ ان دنوں متنازع خبروں کی زد میں ہے۔
امریکی محکمہ تجارت نے ایک بیان میں کہا کہ پیگاسس اسپائی ویئر نے غیر ملکی حکومتوں کو بین البراعظم جبر کرنے کے قابل بنایا ہے، یہ عمل آمرانہ حکومتوں کا طرز عمل ہے جو اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے اپنی خود مختار سرحدوں سے باہر مخالفین، صحافیوں اور کارکنوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
اس کے جواب میں اسرائیلی کمپنی این ایس او نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس کی ٹیکنالوجیز دہشت گردی اور جرائم کو روک کر امریکی قومی سلامتی کے مفادات اور پالیسیوں کی حمایت کرتی ہیں۔
این ایس او کے ترجمان نے بتایا کہ ہم امریکی فیصلے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری مصنوعات کا غلط استعمال کرنے والی سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ متعدد رابطے ختم ہو گئے ہیں‘۔
واشنگٹن نے اسرائیلی کمپنی ’کینڈیئریو‘ کے ساتھ سنگاپور میں قائم کمپیوٹر سیکیورٹی انیشیٹو کنسلٹنسی اور روسی فرم ’پازیٹیو ٹیکنالوجیز‘کو بھی نشانہ بنایا جن پر ہیکنگ ٹولز کی اسمگلنگ کا الزام تھا۔
ایک بیان میں پازیٹیو ٹیکنالوجیز نے کہا کہ فہرست سازی کا ’ہمارے کاروبار پر بہت کم یا کوئی اثر نہیں پڑے گا‘ اور یہ حیرت کی بات نہیں ہے۔
انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ ’ہم خلوص دل سے یقین رکھتے ہیں کہ جغرافیائی سیاست کو معاشرے کی تکنیکی ترقی میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے اور ہم عالمی سطح پر سائبر سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے جو ہم سب سے بہتر کرتے ہیں وہ کرتے رہیں گے‘۔
خیال رہے کہ جاسوسی سافٹ ویئر کے ابتدائی ورژن کی تشخیص 2016 میں ہوئی اور یہ اپنے اہداف کو پھنسانے کے لیے انہیں ایسے ٹیکسٹ میسجز بھیجتے ہیں جس سے وہ میسج پر کلک کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
اس اسپائی ویئر کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے وصول کنندہ کو اسپائی میسجز میں موجود لنک پر کلک کرنا ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی کامیابی سے انسٹالیشن کے امکانات کم ہو گئے کیونکہ اب فون کے صارفین مشکوک لنکس پر کلک کرنے کے حوالے سے بہت محتاط ہو گئے ہیں۔