واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکی محکمۂ دفاع (پینٹاگان) کی ایک حالیہ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ چین تیزی کے ساتھ اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں میں ہونے والا یہ اضافہ اس اندازے سے بھی زیادہ ہے جو گزشتہ برس لگایا گیا تھا۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ چین کی فوج کو مزید جدید بنانے کا ہدف تائیوان میں مزید مؤثر فوجی آپریشنز کرنا ہو سکتا ہے۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگان نے بدھ کو چین کی فوجی طاقت سے متعلق سالانہ رپورٹ کانگریس کو ارسال کی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ چین جس رفتار سے اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کر رہا ہے اس رفتار سے وہ 2027 تک 700 ایسے جوہری ہتھیار بنا لے گا جن کا مؤثر استعمال کیا جا سکے گا جب کہ 2030 تک اس کے پاس لگ بھگ ایک ہزار جوہری ہتھیار ہوں گے۔
پینٹاگان کی چین کی فوجی طاقت سے متعلق 2020 کی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ چین کے پاس لگ بھگ 200 جوہری ہتھیار موجود ہیں جب کہ رواں دہائی کے آخر تک اس کے دگنا ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔
امریکہ کے پاس اس وقت 3800 جوہری ہتھیار موجود ہیں جن کا مؤثر استعمال ممکن ہے۔ چین اگر حالیہ رپورٹ کے اندازوں کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں کامیاب ہو بھی جائے تو اس کے پاس امریکہ کے مقابلے میں جوہری ہتھیار کئی گنا کم ہوں گے۔
پینٹاگان کی کانگریس میں چین کی فوجی استعداد سے متعلق جمع کرائی گئی حالیہ رپورٹ دسمبر 2020 تک موجود معلومات کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہے۔
پینٹاگان کی حالیہ رپورٹ میں چین کے ستمبر 2021 میں کیے گئے سپرسانک میزائل کے تجربے کی معلومات شامل نہیں کی گئیں۔ اس تجربے کو امریکہ کے اعلیٰ فوجی حکام نے تمام تر توجہ کا مرکز قرار دیا تھا۔
پینٹاگان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے اپنی فوج کو جدید بنانے کے لیے 2027 کا ہدف مقرر کیا ہے جس میں مسلح افواج کو جدید طرز پر استوار کیا جائے گا۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق چین کی مسلح افواج کے 2027 کے اہداف میں شامل ہے کہ وہ اپنی استعداد کو بہتر انداز میں استعمال کر سکیں جس کا مقصد تائیوان کو آزادی کی جانب بڑھنے یا مجبور کرنے سے روکا جا سکے۔ جب کہ اس کا مقصد تائیوان کے امریکہ سمیت کسی بھی اتحادی کی دخل اندازی کو بھی روکنا ہو سکتا ہے۔
اعلیٰ عہدیدار کے مطابق امریکہ کو بھی چین کے 2027 کے ہدف کے مطابق مسلح افواج کی استعداد میں اضافے پر خدشات ہیں اور اس کا بغور جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کے مستقبل کے عزائم کی وجہ سے تائیوان پر دباؤ سے متعلق بیجنگ کے 2016 سے جاری اقدامات پر پینٹاگان کے خدشات کم نہیں ہوں گے۔
بیجنگ عوامی سطح پر تائیوان کے چین سے دوبارہ اتحاد کے لیے مسلسل یہ دباؤ بڑھا رہا ہے۔ البتہ کشیدگی میں اضافے کے باوجود تایئوان کے منتخب نمائندے اس جزیرے کو ایک خود مختار حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
کانگریس میں جمع کرائی گئی پینٹاگان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کی فوج کو جدید بنانے اور جوہری قوت میں اضافہ وسیع پیمانے میں کیا جا رہا ہے جس میں 2049 تک امریکہ کی عسکری قوت کے برابر یا اس سے آگے بڑھنے کی کوشش شامل ہے تاکہ بیجنگ کو خطے میں غلبہ حاصل ہو سکے۔
بدھ کو واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب میں امریکہ کی فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ چین کا اپنی مسلح افواج کو جدید بنانا بنیادی طور پر جنگوں کے جدید طریقوں میں کردار تبدیل کرنے کا عمل بھی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی فوج کو روبوٹکس، مصنوعی ذہانت اور دیگر ٹیکنالوجیز کے استعمال سے اپنی رفتار کو برقرار رکھنا ہوگا۔
انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ کی فوج نے آئندہ 10، 15 یا 20 برس میں بنیادی تبدیلیاں نہیں کیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ غلط سمت میں جا رہی ہے۔