اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے/بی بی سی) وزیر اعظم عمران خان عدالت کی جانب سے طلب کرنے پر سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے آرمی پبلک اسکول حملے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وزیرِاعظم عمران خان کو طلب کیا تھا۔
اسلام آباد میں بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آرمی پبلک اسکول حملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان پیش ہوئے اور گزشتہ سماعت پر دیے گئے حکم پر پیش رفت سے آگاہ کیا۔
واضح رہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران اس سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین نے سنہ 2014 میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے علاوہ اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، کور کمانڈر پشاور ہدایت الرحمان اور صوبہ خِیبر پختونخوا کے وزیر اعلی پرویز خٹک کے خلاف اس کیس کا مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی تھی۔
آرمی پبلک اسکول حملے میں ہلاک بچوں کے والدین نے سابق آرمی چیف راحیل شریف، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام، سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار و دیگر حکام پر مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی تھی۔
بدھ کو سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیرِ اعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا، وہ وزیرِ اعظم عمران خان کو عدالتی حکم سے آگاہ کریں گے۔ جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب، یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟ وزیرِ اعظم کو بلائیں، ان سے خود بات کریں گے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمے داران کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے۔ دعویٰ بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں۔ اربوں روپے انٹیلی جنس پر خرچ ہوتے ہیں۔ اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے؟
ازخود نوٹس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کو اسکولوں میں مرنے کےلیے نہیں چھوڑ سکتے۔ چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی۔ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔ اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے۔
بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ شدت پسندوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔ انھوں نے کہا کہ اے پی ایس کا واقعہ سکیورٹی کی ناکامی تھی۔
بینچ میں موجود جسٹس قاضی امین نے کالعدم تحریک طالبان کا نام لیے بغیر کہا کہ اطلاعات یہ ہیں کہ ریاست کسی گروہ کے ساتھ مذاکرات کر ہی ہے۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور انھیں پکڑنا ریاست کا کام نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے اور ملک کی انٹیلیجنس ایجنسیاں کہاں چلی جاتی ہیں۔
اس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ابھی وقفہ ہوا ہے۔
خیال رہے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کے مطالبے پر ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے سال 2020 میں سامنے آنے والی اپنی رپورٹ میں سانحے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیا تھا۔
تین ہزار صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غداری کے سبب سیکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا اور دہشت گردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا جب کہ دہشت گردوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری ناقابلِ معافی ہے۔
اے پی ایس کمیشن رپورٹ
خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی سپریم کورٹ نے چھ برس قبل پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے سے متعلق تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے عدالتی کمیشن کی رپورٹ عام کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا اور اس نے 500 سے زائد صفحات پر مشتمل سانحہ آرمی پبلک سکول کی رپورٹ جولائی 2020 میں چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجی تھی۔
کمیشن کی جانب سے اس واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں اور مارے جانے والے بچوں کے والدین سمیت 132 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے تھے جن میں 101 عام شہری اور 31 سکیورٹی اہلکار اور افسران شامل تھے۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والا گروپ 27 ارکان پر مشتمل تھا جس کے نو ارکان مارے گئے جبکہ 12 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستانی حکام نے اس واقعے میں ملوث متعدد افراد کو فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلا کر سزا دی ہے تاہم ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کا مؤقف رہا ہے کہ ان کے بچے ایک چھاؤنی میں قائم فوج کے زیر انتظام سکول میں حصولِ تعلیم کے لیے گئے تھے وہ جنگ کے محاذ پر نہیں تھے اور یہ کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کی فیس سکول انتظامیہ کو باقاعدگی سے دیتے تھے تو پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا، کس کی ایما پر ہوا اور کس کی غفلت کا نتیجہ تھا؟
والدین کا یہی مطالبہ رہا ہے کہ اس سلسلے میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے اور جن کی غفلت یا لاپرواہی سے یہ حملہ ہوا ہے انھیں سزا دی جائے۔
سانحہ ‘اے پی ایس’ کیا تھا؟
سولہ دسمبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے چھ دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کی کارروائی کرتے ہوئے طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس حملے میں اسکول کے معصوم بچوں اور اساتذہ کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب کہ دھماکے بھی ہوئے تھے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
سیکیورٹی فورسز نے حملے میں ملوث چھ دہشت گردوں کو ہلاک جب کہ اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے اور سہولت کاروں کو گرفتار کرنے یا مارنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
اے پی ایس حملے کے بعض سہولت کاروں کو فوجی عدالت سے موت کی سزا بھی سنائی جا چکی ہیں۔
نوٹ: یہ ابتدائی خبر ہے اس میں مزید تفصیلات شامل کی جا رہی ہیں۔