کیپ ٹاؤن (ڈیلی اردو/اے ایف پی) جنوبی افریقہ کی حکومت نے اسرائیل میں ہونے والے’ مس یونیورس’ کے مقابلے میں شرکت کرنے کے منتظمین کے فیصلے سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جنوبی افریقہ کی حکومت نے 14 نومبر اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ ‘مس جنوبی افریقہ’ کے مقابلے کا اہتمام کرنے والے ادارے نے اسرائیل میں ہونے والے ‘مس یونیورس’ کے مقابلے میں شرکت کا جو فیصلہ کیا ہے، اس سے حکومت کا کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ مقابلہ آئندہ ماہ ہونے والا ہے۔
اسرائیل کے شہر ایلات میں 12 دسمبر کو ‘مس یونیورس’ کا سالانہ مقابلہ ہونے والا ہے۔ جنوبی افریقہ میں بہت شدت کے ساتھ یہ مطالبہ ہو رہا تھا کہ اسرائیل میں ہونے کی وجہ سے ‘مس جنوبی افریقہ’ لالیلا ایم سوانے کو اس مقابلے کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، جس کے بعد حکومت نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔
جنوبی افریقہ میں مقامی سطح پر مقابلہ حسن کا اہتمام کرنے والے منتظمین کا اس بات پر اصرار رہا ہے کہ مس جنوبی افریقہ کو اسرائیل میں ہونے والے عالمی مقابلہ حسن میں حصہ لینے کے لیے جانا چاہیے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ‘مس یونیورس’ مقابلہ، ”سیاست سے متاثرہ کوئی تقریب نہیں ہے۔”
لیکن جنوبی افریقہ کی حکومت اس سے متفق نہیں ہوئی۔ اتوار کے روز تہذیب و ثقافت کی وزارت نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس نے اس سلسلے میں اپنی کوششیں کیں تاہم، ”مس جنوبی افریقہ مقابلے کے منتظمین کو ‘مس یونیورس ایونٹ’ میں حصہ لینے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر آمادہ کرنا کافی مشکل ثابت ہوا ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسی لیے حکومت نے منتظمین کے ”متعصبانہ رویے” اور سرکاری ”مشورے کو نظر انداز کرنے کے بعد اپنی حمایت واپس لے لی ہے۔”
جنوبی افریقہ کی حکومت نے اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا، ”اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم اچھی طرح سے دستاویزی شکل میں موجود ہیں اور، جنوبی افریقہ کے عوام کے جائز نمائندے کے طور پر، حکومت اپنے ضمیر کی آواز پر ایسے پروگرام سے اپنے آپ کو جوڑ نہیں سکتی۔”
جنوبی افریقہ نے نسل پرستی کے خاتمے کے ایک برس بعد سن 1995 میں قائم ہونے والی حکومت نے اسرائیل سے رسمی طور پر سفارتی تعلقات قائم کیے تھے اور وہ فلسطینیوں کے کاز کی حمایت کرتی ہے۔ اس نے 2019 میں بطور احتجاج تل ابیب میں اپنے سفارت خانے کا درجہ کم کرتے ہوئے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا۔
وزیر ثقافت ناتھی میتھاوا کا کہنا کہ حکومت اپنے فیصلے پر قائم ہے اور اس پروگرام میں نوجوان سیاہ فام خاتون لالیلا ایم سوانے کی شرکت عوام میں ان کی مقبولیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
جنوبی افریقہ کی حکمراں جماعت ‘افریقن نیشنل کانگریس’ نے منتظمین پر زور دیا ہے کہ انہیں چاہیے کہ وہ ” نسلی امتیاز کرنے والے ملک اسرائیل کی میزبانی میں ہونے والے’ مس یونیورس’ کے مقابلے کے بائیکاٹ کے لیے مس جنوبی افریقہ سے، جو مطالبات ہو رہے ہیں اس پر توجہ دیں۔”