ینگون (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) امریکی صحافی ڈینی فینسٹر کو پیر کو میانمار کی جیل سے رہا کر دیا گیا جس کے بعد وہ میانمار چھوڑ گئے ہیں۔ فینسٹر کے ادارے اور خاندان نے بتایا ہے کہ یہ رہائی امریکہ کے سابق سفارتکار بل رچرڈسن اور فوجی حکومت کے درمیان مذاکرات کے بعد عمل میں آئی۔
37 سالہ فینسٹر کو، جو میانمار سے نکلنے والے آن لائن میگزین ’فرینٹئر میانمار‘ کے مینیجنگ ایڈیٹر تھے، انھیں جمعے کے روز گیارہ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان پر امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی اور غیر قانونی طور پر مجمع سازی کا الزام تھا۔ اس سزا پر بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔
فینسٹر نے پیر کے روز سفارتکار رچرڈسن کے ساتھ میانمار کو خیرباد کہہ دیا اور قطر جانے والی فلائٹ پر سوار ہو گئے۔ رچرڈسن سنٹر نے ایک تصویر سوشل میڈیا پر جاری کی ہے جس میں دونوں شخصیات کو جہاز پر سوار ہونے کے لیے تیار دیکھا جا سکتا ہے۔
Governor Bill Richardson and the Richardson Center are thrilled to announce the release of American journalist Danny Fenster from prison in Myanmar. pic.twitter.com/kBGvlY8e1G
— Richardson Center (@RichardsonCNTR) November 15, 2021
رچرڈسن نے، جنہوں نے اس ماہ کے اوائل میں میانمار کا دورہ کیا، ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم بہت شکر گزار ہیں کہ ڈینی آخر کار اپنے پیاروں کے ساتھ رابطہ کر سکیں گے جو اس پورے عرصے میں سخت مخالفتوں کے باوجود ان کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔
فینسٹر ان درجنوں میڈیا ورکرز میں شامل تھے جن کو میانمار میں یکم فروری کو فوجی بغاوت کے بعد گرفتار کیا گیا۔ سویلین حکومت کا تختہ الٹے جانے اور جمہوریت کی جانب عشرہ بھر کے اقدامات میں فوجی مداخلت پر ملک بھر میں عوام کا سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔
میانمار کی فوج کئی ایک میڈیا اداروں پر لوگوں کو اشتعال دلانے اور غلط معلومات پھیلانے کا الزام عائد کر چکی ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے فینسٹر کی رہائی کے لیے امریکی حکام اور ایمبیسیڈر رچرڈسن کی کوششوں کو سراہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمھیں خوشی ہے کہ ڈینی جلد اپنے خاندان والوں کے ہمراہ ہوں گے۔ ہم باقی تمام لوگوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں جن کو غیر منصفانہ طور پر جیل میں بند رکھا گیا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے آیا فینسٹر کی رہائی کے لیے کچھ شرائط بھی رکھی گئی تھیں۔ فینسٹر کو مئی میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ملک چھوڑ کر جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ینگون میں قائم امریکی سفارتخانے سے اس بارے میں ردعمل کی درخواست کی گئی جس پر تاحال جواب نہیں دیا گیا۔
میانمار میں ملٹری کونسل نے بھی رائٹرز کو اپنا ردعمل نہیں دیا ہے۔ تاہم، بی بی سی کی برمی سروس نے بتایا ہے کہ فوج کے ترجمان نے فینسٹر کی رہائی کی تصدیق کی ہے، لیکن اس بارے میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی ہے۔
رچرڈسن نے جو نیو میکسیکو کے سابق گورنر ہیں اور اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر بھی رہ چکے ہیں، دو نومبر کو انسانی ہمدردی کے تحت اچانک میانمار کا دورہ کیا تھا اور عالمی وبا کووڈ نائنٹین میں معاونت کی پیش کش کی تھی۔
میانمار میں فوجی حکومت کے سربراہ کے ساتھ بات چیت
ایمبیسیڈر رچرڈسن ان چند غیر ملکیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے فوجی حکومت کے سربراہ من انگ لینگ سے میانمار میں ملاقات کی۔ میانمار کے جنرل ان افراد میں شامل ہیں جن پر امریکہ اور مغربی اتحادیوں کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں۔
رچرڈسن کی تنطیم نے بتایا ہے کہ فنسٹر کی رہائی ان کے نجی دورے اور من انگ لینگ کے ساتھ ملاقات کے بعد ہوئی۔
فرنٹئیر کے ایڈیٹر ان چیف تھامس کین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہمھیں اس بات پر خوشی ہے کہ ڈینی بالآخر جیل سے رہا ہو گئے ہیں۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں ان کو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
فینسٹر کے بھائی بریان نے بھی ایک بیان میں بتایا ہے کہ اس رہائی پر پورا خاندان بے حد خوش ہے۔ انہوں نے ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اس رہائی میں کردار ادا کیا ہے۔