نیو یارک (ڈیلی اردو) اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کا کہنا ہے کہ ایران ایک بار پھر انتہائی افزودہ یورینیم کے ذخائر بڑھا رہا ہے جبکہ کچھ روز بعد ہی 2015 کے جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے سے متعلق مذاکرات ہونے جارہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے اپنی رپورٹ میں اندازہ ظاہر کیا ہے کہ ایران کے پاس انتہائی افزودہ یورینیم کا ذخیرہ 2 ہزار 489.7 کلو گرام ہے، جو کہ 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ حد سے کئی گنا زیادہ ہے۔
اس رپورٹ پر آئندہ ہفتے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں تبادلہ خیال کیا جائے گا جبکہ سفارت کار ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے 29 نومبر کو ویانا میں مذاکرات کی تیاری کر رہے ہیں۔
معاہدے میں شریک دیگر ممالک برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس بھی مذاکرات میں شامل ہوں گے جبکہ امریکا بالواسطہ شرکت کرے گا۔
ویانا میں اقوام متحدہ کے اداروں میں ایران کے مشن سربراہ محمد رضا غائبی کا کہنا تھاکہ ’نئی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ آئی اے ای اے نے تہران سے متعلق اپنی تصدیق اور نگرانی کی سرگرمیاں جاری رکھی تھیں‘۔
ایرانی میڈیا نے محمد رضا غائبی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’دونوں فریقین میں مسائل کے حل کے لیے مذاکرات جاری ہیں‘۔
ان کا مزید کہا تھا کہ ’آئی اے ای اے کے رکن ممالک جلد بازی اور سیاسی محرک کے طور پر تبصروں سے گریز کریں‘۔
ایران کی جوہری ایجنسی کے ترجمان نے ایرانی خبر رساں ادارے ’فارس‘ کو بتایا کہ آئی اے ای اے کے سربراہ ریفائل گروسی پیر کو تہران پہنچیں گے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ریفائل گروسی ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور ایرانی جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی سے ملاقات کریں گے۔
12 نومبر کو ریفائل گروسی نے نئی ایرانی حکومت کے صدر ابراہیم رئیسی سے رابطے کی کمی کو ’حیران کُن‘ قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں امید تھی کہ ایرانی عہدیداران آئندہ ہفتے ہونے والی آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
ستمبر میں تہران کے دورے کے دوران ریفائل گروسی نے ایران کی جوہری تنصیبات کی نگرانی کے لیے رسائی کا معاہدہ کیا تھا۔
بعد ازاں آئی اے ای اے نے شکایت کی کہ ایران، تہران کے قریب کرج کے شہر میں واقع ٹیسا کمپلیکس یونٹ تک رسائی دینے سے گریز کرتے ہوئے ستمبر میں ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
ایران کے سفیر نے آئی اے ای اے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’اس کمپلیکس سے متعلق آلات سروسنگ کے لیے شامل ہیں‘۔
انہوں نے آئی اے ای اے کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے مانیٹرنگ آلات پر کام کرے۔
آئی اے ای اے نے بھی ’واضح طور‘ پر تردید کی کہ اس کے کیمروں نے جون میں ٹیسا کمپلیکس پر ہونے والے غیر دعویدار حملوں میں کردار ادا کیا ہے۔
آئی اے ای اے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ تہران کی جانب سے ان حملوں کا الزام اپنے دشمن اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے ایجنسی کو بتایا گیا تھا کہ وہ ممکنات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
ریفائل گروسی کی جانب سے کیا گیا معاہدہ فروری میں ہونے والے معاہدے کی توسیع تھا جس کے بعد ایران نے ملک میں آئی اے ای اے کی سرگرمیوں کو محدود کردیا تھا۔
بدھ کو منظر عام پر آنے والی رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے ’معلومات کے حصول کے لیے معاہدہ جاری رکھنا ایجنسی کے لیے نمایاں چیلنج بنتا جارہا ہے‘۔
انہوں نے خبردار کیا کہ 2015 کے جوہری معاہدے میں آنے کے لیے کرج میں ہونے والی سرگرمیوں پر وضاحت ضروری ہے۔