پیرس (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے ایف پی/اے پی) بدھ کے روز کم از کم 30 تارکین وطن اس وقت ہلاک ہوگئے جب فرانسیسی ساحل کے قریب ان کی کشتی الٹ گئی۔ یہ لوگ فرانس سے انگلینڈ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ واقعہ فرانس کے ساحلی شہروں کیلے اور ڈنکرک کے قریب پیش آیا۔ تارکین وطن فرانس اور انگلینڈ کے درمیان واقع انگلش چینل کے راستے برطانیہ جانے کی کوشش کررہے تھے۔ ماہی گیروں نے پانی میں بے ہوش افراد، لاشوں اور خالی کشتی کو تیرتا ہوا دیکھا جس کے بعد متعلقہ حکام کو مطلع کیا گیا۔
فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینین نے بتایا کہ کشتی پر غالباً 34 افراد سوار تھے۔ 31 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ ان میں پانچ خواتین اور ایک کمسن بچی شامل ہے۔ د و افراد کو بچالیا گیا ہے جبکہ ایک شخص اب بھی لاپتہ ہے۔ ان لوگوں کی قومیت فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکی ہے۔
ڈرمینین نے کہا کہ انگلش چینل میں مہاجرین کے ساتھ ہونے والا یہ اب تک کا بدترین حادثہ ہے۔
مہاجرین کی بین الاقوامی تنظیم (آئی او ایم) کے اعدادوشمار کے مطابق سن 2014 کے بعد سے انگلش چینل میں مہاجرین کی کشتی کے ڈوبنے کا یہ سب سے ہلاکت خیز واقعہ ہے۔
ڈرمینین نے فرانس کے بی ایف ایم ٹی وی کو بتایا کہ کشتی سانحے کے سلسلے میں چار مشتبہ اسمگلروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے اس حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یورپی یونین کے مہاجرت کے امور کے وزراء کی ہنگامی میٹنگ طلب کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا،”انگلش چینل کو قبرستان میں تبدیل ہونے کی “اجازت نہیں دی جائے گی۔
فرانس اس حوالے سے آج ایک ہنگامی میٹنگ کر رہا ہے جس میں آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا جائے گا۔
وزیر اعظم جانسن کا بردہ فروشوں کو “تباہ کرنے” کا عزم
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ وہ انگلش چینل میں مہاجرین کی موت سے” انتہائی صدمے میں اور غمزدہ ” ہیں۔
جانسن نے کہا،” میری ہمدردیاں متاثرین اور ان کے کنبے کے ساتھ ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ انہیں اس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن یہ حادثہ اس امر کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ انگلش چینل کو اس طرح پار کرنے کی کوشش کرنا کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔”
جانسن نے کہا کہ برطانیہ کو”انسانی اسمگلروں کو انسانوں کی اس تجارت کو تباہ کرنے کے لیے ہر ممکن طاقت استعمال کرنا چاہیے اور ہم اسے ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا،” ہمیں اپنے فرانسیسی دوستوں، اپنے یورپی پارٹنرز کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ میں چینل کے دوسری طرف کے اپنے ساتھیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں اور ان گروہوں کو توڑنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔”
اب تک کا بدترین سانحہ
انگلش چینل دنیا کے مصروف ترین آبی شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ اس کی لہریں بہت تیز ہیں جس کی وجہ سے اس میں کشتی چلانا بظاہر بہت خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
سن 2019 میں ویت نام کے 39 تارکین وطن اس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب وہ ایک ریفریجریٹیڈ ٹرک کے اندر چھپ کر ایک کشتی کے ذریعہ بیلجیئم سے برطانیہ آنے کی کوشش کررہے تھے۔ یہ یورپ اور برطانیہ میں تارکین وطن کے ساتھ پیش آنے والا بدترین سانحہ تھا۔
گزشتہ برس ستمبر میں بھی ڈنکرک کی ساحل کے قریب ایک کشتی ڈوب جانے سے اس پر سوارچار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جن میں دوبچے شامل تھے جبکہ 15دیگر افراد کو بچالیا گیا تھا۔
فرانس اور برطانیہ دونوں ملکوں کی پولیس انگلش چینل پر نگاہ رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود مہاجرین برطانیہ پہنچنے کے لیے شمالی فرانس کے سمندری راستے کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان پچھلے کئی برسوں سے تنازعے کا موجب بنا ہوا ہے۔
پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ شمالی افریقہ یا ترکی سے بحیرہ روم پار کرکے یورپ پہنچنے کی کوشش میں رواں برس تقریباً سولہ سو افراد ہلاک یا لاپتہ ہوچکے ہیں۔