قاہرہ (ڈیلی اردو/اے ایف پی) مصر میں جمعرات کو دہشت گردی کے 54 حملوں میں ملوث پائے گئے 22 عسکریت پسندوں کو پھانسی دے دی گئی۔ ان کے جرائم میں سابق وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملہ بھی شامل ہے۔
ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) کو یہ بات مصر کے ایک عدالتی ذریعے نے بتائی ہے۔
#BREAKING Egypt sentences 22 jihadists to death: judicial source pic.twitter.com/2RnXPf39MS
— AFP News Agency (@AFP) November 25, 2021
ان افراد پر 54 دہشت گرد حملوں کا جرم ثابت ہونے کے بعد مصر کی عدالت نے یہ سزا سنائی تھی۔ ان حملوں میں ایک سینئر پولس افسر کا قتل اور سابق وزیر داخلہ محمد ابراہیم پر قاتلانہ حملے کی کوشش بھی شامل ہے۔
مصر میں موت کی سزا تختہ دار پر لٹکا کر دی جاتی ہے۔ اس نوعیت کے عدالتی حکم کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی۔ پھانسی کی سزا پانے والوں میں ایک سابق پولیس افسر بھی شامل ہے۔
جن 22 مجرموں کو پھانسی دی گئی ہے ان کا تعلق انصار بیت المقدس گروپ سے ہے، جس نے 2014 میں داعش کے ساتھ حلف وفاداری اٹھایا تھا۔
یہ فیصلہ اپیلز کی سماعت کرنے والی عدالت نے سنایا، جو مصر میں اپیل کی اعلیٰ ترین عدالت ہے۔ اسی کیس میں 118 افراد کی قید کی سزا بھی سنائی گئی جن میں کئی برس سے لے کر عمر قید تک کی سزا شامل ہے۔
مصر میں کئی برسوں سے شمالی جزیرہ نما سینا کے علاقوں میں باغیانہ خون ریز لڑائی جاری تھی جو 2013 میں فوج کی طرف سے اسلام نواز صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے بعد مزید بھڑک اٹھی۔
فروری 2018 میں فوج اور پولیس نے سینا کے شمالی علاقے سمیت ملک بھر میں عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس کارروائی میں تقریباً 1,073 مشتبہ عسکریت پسند اور درجنوں سیکورٹی اہل کار ہلاک ہوئے۔
اس ماہ کے اوائل میں مصر نے اسرائیل کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا کہ داعش عسکریت پسندوں کو علاقے سے باہر نکالنے کے لیے سرحدی قصبے رفاہ میں مزید فوجی تعینات کیے جائیں گے۔
انصار بیت المقدس کے جنگجو گروپ کی قیادت سپیشل فورس کا ایک سابق افسر هشام عشماوي کرتا تھا اور یہ مصر میں ایک انتہائی مطلوب ملزم تھا۔ یہ اپنے عسکریت پسند گروپ سے اس وقت الگ ہوگیا جب گروپ نے القائدہ کو چھوڑ کر داعش سے وفاداری کا اعلان کیا۔
یہ بھی جمعرات کو دی جانے والی پھانسی کے ان بائیس مجرموں کے ساتھ اسی کیس میں شامل تھا، مگر یہ 2018 میں بھاگ کر مشرقی لیبیا چلا گیا تھا، جہاں یہ پکڑا گیا اور بعد میں اسے مصر کے حوالے کر دیا گیا۔ مارچ 2020 میں اس کا جرم ثابت ہونے پر اسے پھانسی دے دی گئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مصر، ایران اور چین کے بعد دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں پھانسی کی سزا دی جاتی ہے۔ صرف 2020 میں مصر میں کم از کم 107 افراد کو موت کی سزا دی گئی۔