کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی ڈبلیو) جمعرات کے روز ایک ہزار سے زائد افغان ہزارہ عمائدین نے ملک میں طالبان کی عبوری حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔ ہزارہ براردی کے رہنماؤں نے افغانستان میں مغرب کی حمایت یافتہ گزشتہ حکومتوں کو ’تاریک دور‘ بھی قرار دیا۔
در هوتل قصر صفا مربوطات دشت برچی واقع در غرب شهر کابل یک گردهمایی پر شکوهی جهت حمایت برادران اهل تشیع به رهبری داکتر جعفر مهدوی، از امارت اسلامی همین اکنون برگزار گردید.
دراین گردهمایی بشمول مجاهد صاحب مسئولین دیگرامارت اسلامی نیزحضوردارند ومجاهد صاحب سخنرانی مهمی راایرادخواهدکرد pic.twitter.com/Xslq88bUPq— Bilal Karimi(بلال کـریمي) (@BilalKarimi44) November 25, 2021
افغانستان میں شیعہ ہزاہ کمیونٹی کو سنی شدت پسند گروہ مسلسل جان لیوا حملوں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ تاہم جمعرات کے روز کابل میں اس کمیونٹی کے قریب ایک ہزار عمائدین طالبان رہنماؤں کے ساتھ جمع ہوئے اور ملک میں طالبان کی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔
همین اکنون گردهمایی بزرگی به رهبری داکتر جعفر مهدوی و اشتراک هزاران تن از برادران اهل تشیع در حمایت از امارت اسلامی در هوتل قصر صفا در غرب کابل جریان دارد.
شماری از مسوولان، بهشمول ذبیحالله مجاهد سخنگوی ا.ا.ا. و معین نشرات وزارت اطلاعات و فرهنگ در این گردهمایی اشتراک کردند. pic.twitter.com/wP1cjzpM9t— باختر خبري آژانس (@bnapashto) November 25, 2021
ہزارہ کمیونٹی کے سینیئر رہنما اور سابق قانون ساز جعفر مہدوی نے اس اجتماع کا انعقاد کیا تھا۔ مہدوی نے سابق افغان صدر اشرف غنی کے دور اقتدار کو افغانستان کے لیے ‘تاریک ترین دور‘ قرار دیا۔
یو شمیر هزاره ګانو او شعیه مذهبو په کابل کې د طالبانو په ملاتړ غونډه کړې https://t.co/izhzkIKv1A
— VOA Pashto (@VOAPashto) November 25, 2021
غنی حکومت کے بارے میں مہدوی کا کہنا تھا، ”افغانستان کو کوئی آزادی حاصل نہیں تھی اور غیر ملکی سفارت خانے حکومت کے ہر شعبے پر قابض تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ تاریک دور اب ختم ہو گیا ہے۔‘‘
ہزارہ رہنما نے افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کیے گئے اقدامات کی تعریف بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی نئی حکومت نے ملک میں جاری جنگ کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن کو بھی ختم کیا ہے اور سیکورٹی بھی مضبوط کی ہے۔
https://twitter.com/Natsecjeff/status/1463852319385300993?t=YIQdZ3zaHyXYSWvjn8CVaw&s=19
افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کی امید
اے ایف پی کے مطابق مہدوی نے کہا، ”آئندہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں تمام لوگوں کی نمائندگی پر مشتمل حکومت بنے گی۔‘‘
طالبان نے اقتدار پر قبضے کے بعد عبوری حکومت قائم کر رکھی ہےجس میں طالبان کے علاوہ دیگر نسلی گروہوں کی نمائندگی نہیں ہے اور نہ ہی خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔
ہزارہ رہنماؤں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے طالبان رہنما ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کی اس وقت ترجیح ملکی تعمیر نو ہے۔ انہوں نے کہا، ”غیر ملکی قابضوں کے خلاف ہمارا جہاد ختم ہوچکا ہے اور اب ملک کی تعمیر نو کا جہاد شروع ہو چکا ہے۔‘‘
اندازوں کے مطابق افغانستان میں ہزارہ کمیونٹی کی تعداد ملک کی مجموعی 38 ملین آبادی میں دس اور بیس فیصد کے درمیان ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہ کمیونٹی طالبان اور داعش جیسے شدت پسندوں کا ہدف بنتی رہی ہے۔ ہزارہ برادری کو خودکش حملوں کے علاوہ اجتماعی قتل جیسے واقعات کا سامنا بھی رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سن 1998 میں مزار شریف میں ہزارہ برادری کے دو ہزار سے زائد افراد کو قتل کیا گیا تھا۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد بھی ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افغان شہری کئی حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں، زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی تھی۔
اس اجتماع شریک ہزارہ رہنماؤں نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا کہ مستقبل میں بھی داعش کے جنگجو انہیں مزید حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔