انقرہ (ع ا (روئٹرز/اے ایف پی) شمالی شام میں ترکی کے زیرقبضہ علاقوں میں انقرہ حکومت کی جانب سے تیار اور تقسیم کردہ کتابوں میں پیغمبر اسلام کے تصویری اظہار پر شامی باشندوں کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے، جب کہ یہ کتابیں جلائی جا رہی ہیں۔
خروج مظاهرة حاشدة من جامع الكبير في مدينة #الباب السورية نصرة لرسول الله بعد الإساءة لمقام وقدر النبي محمد عبر توزيع كتب تابعه لوزارة التعليم التركية فيها رسومات مسيئة
— Ayda News (@AydaNews) November 26, 2021
ترک وزارت تعلیم کی جانب سے ابھی حال ہی میں الباب اور دیگر شامی علاقوں میں کتابیں پہنچائیں گئیں تھیں، جن میں اسلامیات کی کتاب میں پیغمبر اسلام کے تصویری اظہاریے موجود تھے۔ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن میں گو کہ پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر براہ راست پابندی نہیں ہے، تاہم مسلمانوں کی بڑی تعداد پیغمبر اسلام کے کسی بھی قسم کے تصویری اظہاریے کو توہین سمجھتی ہے۔
ترک وزارت تعلیم کی جانب سے اسلامیات کی کتاب میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کو مقامی شامی باشندوں نے پیغمبر اسلام کی توہین قرار دیا ہے۔ ایک تصویر میں گلابی سوئیٹر اور ارغوانی پینٹ پہنے ایک داڑھی والا شخص گھٹنوں پر ہو کر اسکول بس سے اترنے والی اپنی بیٹی کو اٹھا رہا ہے۔ اس تصویر والے صفحے کا عنوان ہے، ”پیغمبرؐ اپنی بیٹی فاطمہؑ کا استقبال کر رہے ہیں۔‘ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ صفحے کی شہ سرخی اسی تصویر سے متعلق ہے۔
Educators are burning copies of a Turkish-produced Islamic education textbook given to schools in Turkish-occupied al-Bab, as it contains a cartoon image of the Prophet Muhammad.
This is a weird thing for producers of an Islamic education textbook to get wrong. pic.twitter.com/uPQRJkNHlO
— Lindsey Snell (@LindseySnell) November 25, 2021
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ترک سرحد کے قریب شامی قصبے جرابلس کے رہائشی اس کتاب کی نقول کو نذر آتش کر رہے ہیں۔
هذه الكتب التي تم توزيعها في الباب pic.twitter.com/me0X7OuUsA
— مغرد سوري (@Tb7FgaFJwxqQlKu) November 25, 2021
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں ایک مقامی رہائشی مصطفیٰ عبدالحق کا کہنا تھا، ”ہم صبح یہ کتابیں دیکھ کر حیران رہ گئے، جن میں پیغمبر کے تصویری اظہاریے شامل تھے۔ ہم نے تمام کتابیں جلا دیں۔‘‘
انقرہ کے زیرقبضہ دیگر علاقوں بہ شمول الباب شہر میں رہائشیوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ کتاب واپس نہیں لی جاتی، تو وہ جمعے کے روز اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔
واضح رہے کہ ترکی اور اس کے حمایت یافتہ جنگجو گروپوں نے سن 2016 میں متعدد عسکری آپریشنز کے ذریعے شام کے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ ان علاقوں میں ترک کرنسی لیرا چلتا ہے جب کہ اسکولوں، ڈاک خانوں اور ہسپتالوں میں ترک زبان رائج ہے۔
الباب شہر کے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ عہدیدار جمعہ کازکاز نے کہا ہے کہ یہ کتب قریبی ترک صوبوں سے مہیا کی گئی ہیں جب کہ ان نصابی کتب میں تبدیلی کے لیے غازی انتپ شہر میں قائم محکمہ تعلیم کے دفتر سے رابطہ کیا گیا ہے جب کہ فیصلے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔