لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین کی مقامی عدالت نے عدالتی حکم نہ ماننے پر منڈی بہاؤالدین کے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو تین تین ماہ قید کی سزا کا حکم سنایا ہے۔
رواں ہفتے جمعے کو ہونے والی سماعت میں ڈسٹرکٹ کنزیومر کورٹ کے جج راؤ عبد الجبار خان نے توہینِ عدالت کے معاملے پر ڈپٹی کمشنر طارق علی بسرا اور اسسٹنٹ کمشنر امتیاز بیگ کو تین تین ماہ قید کی سزا سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ جیل گجرات بھجوانے کا حکم دیا ہے۔
ڈی سی اور اے سی کے علاوہ عدالت نے ایک اور اہل کار رانا محبوب کو تین ماہ قید کا حکم سنا کر ڈسٹرکٹ جیل گجرات بھجوانے کا حکم دے دیا۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق محکمۂ انہار کے ایک کلرک محمد عاصم حسین نے کنزیومر کورٹ کے جج راؤ عبد الجبار کی عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ سرکاری کالونی میں ایک کوارٹر کی الاٹمنٹ اُن کے نام تھی جسے ضلعی انتظامیہ نے منسوخ کر کے الاٹمنٹ سرکاری ٹیچر حسن علی کو دے دی ہے۔
عدالت کو دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ محمد عاصم سے زبردستی سرکاری مکان خالی کرایا گیا ہے جو کہ غیر قانونی ہے۔ محمد عاصم حسین نے عدالت سے استدعا کی کہ اُنہیں اور ان کے گھر والوں کو چاردیواری کا تحفظ دیا جائے۔
عدالتی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کیس کی سماعت کے دوران دو روز قبل اے سی آفس کے ایک اہل کار نے عدالت میں پیش ہوکر مبینہ طور پر ناروا رویہ اختیار کیا جس کا عدالت نے نوٹس لے کر مزید کارروائی کا عندیہ دیا۔
عدالتی ذرائع کے مطابق اِسی دوران مبینہ طور پر ڈپٹی کمشنر نے بھی فون پر عدالت کو معاملہ ختم کرنے کی ہدایت کی۔
عدالتی ذرائع کے مطابق دو روز تک ہونے والی سماعت میں اسسٹنٹ کمشنر امتیاز علی بیگ نے عدالت کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے سخت لہجہ استعمال کیا جس پر جج نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا تو اسسٹنٹ کمشنر نے عدالت میں معافی مانگی لی۔
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ متعدد بار ڈی سی اور اے سی کو نوٹس بھجوائے مگر دونوں افسران پیش ہوئے اور نہ ہی عدالت کے حکم کی تعمیل کی گئی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق دونوں افسران نے اپنی جگہ ایک اہل کار رانا محبوب کو عدالت میں بھیجا جس نے عدالت کے اختیارات کو چیلنج کر دیا۔
کنزیومر کورٹ کے جج راؤ عبدالجبار نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ بعد ازاں ڈپٹی کمشنر منڈی بہاؤالدین طارق علی بسرا نے جج راؤ عبد الجبار کو ٹیلی فون کیا جسے عدالت نے غیر قانونی قرار دیا۔
جمعہ کے روز ہونے والی سماعت میں دونوں افسران عدالت کو مطمئن نہ کر سکے جس پر عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے رویہ کو ہتک آمیز قرار دیتے ہوئے انہیں تین تین ماہ قید کی سزا سنا کر جیل بھجوانے کا حکم جاری کر دیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی جس پر عدالت نے نوٹس جاری کر دیا۔ بعد ازاں مقامی بار کے صدر نے عدالت سے درخواست کی کہ عدالتی حکم نامہ واپس لیا جائے البتہ عدالت نے اپنا فیصلہ واپس نہیں لیا۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت جو اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ وہ واپس نہیں لے رہی۔ عدالتی فیصلے کے مطابق ڈی سی صاحب کو سزا دی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس نے دونوں افسران کو کمرہٴ عدالت میں ہی حراست میں لے لیا۔ عدالت نے اِس سلسلے میں سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل گجرات کو افسران کی سزا بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔
خیال رہے پاکستان میں سرکاری افسران کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی پر اُن کی کمرہ عدالت سے گرفتاری کے واقعات کم ملتے ہیں۔
ماہرِ قانون اور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان کہتے ہیں کہ افسران نے عدالت کا حکم نہیں مانا ہو گا جس پر عدالت کو اِس حد تک جانا پڑا۔ لیکن اِس میں دیکھا جائے گا کہ توہینِ عدالت کی سزا دینے سے قبل دونوں افسران کو شو کاز نوٹسز اور دیگر قواعد پر عمل کیا گیا ہے یا نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت نے یہ کارروائی فوری طور پر نہیں کی جس میں تمام مراحل کو طے کیا گیا ہے۔
ان کے بقول ایسے کیسوں میں یہی دیکھنا ہوتا ہے کہ تمام قواعد پورے کیے گئے یا نہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلہ ٹھیک بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی جس کے خلاف دونوں افسران عدالتِ عالیہ (ہائی کورٹ) میں اپیل بھی کر سکتے ہیں۔
حامد خان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی کیس میں توہینِ عدالت ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے کیسوں میں جہاں پر عدالت کوئی حکم دے اور اُس پر عمل نہ کیا جائے۔ ایسا کیس واضح طور پر توہینِ عدالت کا بن جاتا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ماتحت عدالتیں بھی انتظامی افسران کو سزا دے سکتی ہیں جب اُن کی حکم عدولی کی جائے۔
سابق سینئر بیورکریٹ تسنیم نورانی سمجھتے ہیں کہ ایسے فیصلوں سے انتظامی ڈھانچے پر فرق پڑے گا کیوں کہ اگر اِس طرح ایک ادارہ دوسرے ادارے کو کٹہرے میں لانا شروع کر دے تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے تسنیم نورانی نے کہا کہ پہلے اِس طرح کے واقعات تو سننے کو ملتے رہے ہیں کہ جوڈیشل افسر اور انتظامی افسر کے درمیان تلخی ہوتی رہی ہے۔ جو کہ مناسب بات نہیں ہے۔ اُن کی رائے میں اگر ایسے فیصلوں سے ڈلیوری بہتر ہوتی ہے تو درست بات ہے۔
تسنیم نورانی نے مزید کہا کہ اگر ایسے کیسوں میں انتظامی افسر کی شکایت اگر اُس کے سینئر افسر کے علم میں لانے کے بجائے جوڈیشل فورم پر ہونا شروع ہو جائے تو ادارے کیسے چلیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اے سی کی شکایت ڈی سی کو، ڈی سی کی شکایت کمشنر کو ہونی چاہیے تھی۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر ہر سطح پر جوڈیشل افسر کو یہ اختیار دے دیا جائے گا کہ اگر کسی کا کام نہیں ہوتا تو اُس افسر کو حوالات میں بند کر دیا جائے تو ایسی صورت میں عدالت میں کام کرانے والوں کا تانتا بندھ جائے گا۔ ایسی صورت میں دونوں اداروں کے نظام نہیں چلیں گے۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان کہتے ہیں کہ فوجداری قوانین کے تحت بھی اگر سول کورٹ نے کوئی اسٹے آرڈر دیا ہے اور اُس پر عمل نہیں کیا گیا تو ایسی صورت میں بھی سزا دی جا سکتی ہے۔ سول کورٹ کو بھی یہ اختیار حاصل ہے۔
اُن کی رائے میں بنیادی طور پر یہ اپنے حکم پر عمل کرانے کے لیے یہ اختیار دیا جاتا ہے۔
کیس سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ مذکورہ کیس میں سزا کسی ذاتی مسئلے پر نہیں دی گئی۔ یہ سزا عدالتی حکم نہ ماننے پر دی گئی ہے۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ توہینِ عدالت کے تحت کارروائی بھی وہاں بنتی ہے جہاں عدالتی حکم مانا نہ جا رہا ہو۔
حامد خان کے بقول اگر عدالتیں اپنے حکم پر عمل نہ کرا سکیں تو ایسی صورت میں عدالتی اختیار اور قوانین پر عمل درآمد خطرے میں چلا جاتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوانین کے تحت توہین عدالت میں زیادہ سے زیادہ سزا چھ ماہ اور جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہیں۔
تسنیم نورانی بتاتے ہیں کہ کسی بھی افسر کو سزا ملنے پر اُس کے کیرئیر پر اثر پڑ سکتا ہے۔
اُن کے خیال میں متعلقہ محکمے کچھ ایسے اقدامات کریں گے کہ دونوں افسران کے کیرئیر پر کوئی اثر نہ پڑے۔ چیف سیکریٹری اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو اب دیکھنا پڑے گا کہ دونوں افسران کے ساتھ کیا کیا جائے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اپیل میں یہ فیصلہ واپس ہو جائے۔
تسنیم نورانی بتاتے ہیں کہ کسی بھی افسر کو صرف اِس بات پر گرفتار کرنا کہ اُس نے فلاں کام نہیں کیا یا عدالت کا حکم نہیں مانا تو وہ درست نہیں ہے۔
اُن کے خیال میں جب ملک کی اعلیٰ عدالتیں بڑے افسران کو بار بار طلب کرتی ہیں تو ماتحت عدالتیں بھی جونئیر افسران کو طلب کیے بغیر نہیں رہتیں۔
واضح رہے پاکستانی قوانین کے مطابق کوئی بھی سزا یافتہ شخص سرکاری ملازمت کے لیے اہل تصور نہیں کیا جاتا۔