اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر کی ساڑھے گیارہ ماہ بعد ضمانت منظور کرلی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر اس کیس میں دیگر ملزمان کی ضمانت منظور کی جاچکی ہے تو علی وزیر بھی ضمانت کے حق دار ہیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے علی وزیر کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس قاضی امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل شامل تھے۔
عدالت میں سماعت شروع ہوئی تو علی وزیر کے وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کے خلاف دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے اور انہیں ایک سال سے پابند سلاسل رکھا ہوا ہے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ علی وزیر نے صرف ایک تقریر کی تھی جس میں انہوں نے ریاست سے اپنے گلے شکوے کیے۔ ریاست پاکستان اتنی کمزور اور کانچ کا شیش محل نہیں کہ ایک تقریر کا پتھر لگنے سے ٹوٹ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس میں علی وزیر پر عائد الزامات میں فرانزک کی جو رپورٹس سامنے آئیں وہ بھی منفی ہیں اور علی وزیر پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔
دوران سماعت عدالت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا نام لیے بغیر تذکرہ بھی ہوا۔ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ ریاست مذاکرات کر کے لوگوں کو چھوڑ رہی ہے، ہو سکتا ہے کل علی وزیر کے ساتھ بھی معاملہ طے ہو جائے۔
جسٹس سردار طارق نے کہا “میرے خیال میں تو اس کیس میں دہشت گردی کی دفعات بھی نہیں بنتی لیکن میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہا کہ آپ کا کیس متاثر ہوگا۔”
پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی طرف سے ایف آئی آر اور چالان کی تفصیلات عدالت کو فراہم کی گئیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا علی وزیر کے الزامات پر پارلیمان میں بحث نہیں ہونی چاہیے؟ علی وزیر نے شکایت کی تھی اس کا گلہ دور کرنا چاہیے تھا، اپنوں کو سینے سے لگانے کے بجائے پرایا کیوں بنایا جا رہا ہے؟ اگر علی وزیر کا ایک بھی الزام درست نکلا تو کیا ہوگا؟
جسٹس سردار طارق نے پراسیکیوٹر جنرل سے سوال کیا کہ اس کیس میں دو ملزمان نور محمد کریم اور شیر محمد کی ضمانتیں لی جاچکی ہیں جس پر پراسیکیوٹر نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس پر لطیف آفریدی نے کہا کہ اس کیس کے بیشتر ملزمان کی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیں۔
جسٹس سردار طارق نے سوال کیا کہ جن ملزمان کو ضمانتیں ملیں کیا ان پر مختلف الزامات تھے؟ جس پر پراسیکیوٹر نے عدالت میں ایف آئی آر اور چالان پیش کیا۔ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ ان تمام افراد پر بشمول علی وزیر ایک جیسے الزامات عائد کیے گئے۔ ان سب پر ریاست مخالف اور اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام لگے لیکن باقی سب کو ضمانت مل چکی ہے اور علی وزیر کو ضمانت کیوں نہیں دی گئی؟
اعلیٰ عدالت نے قرار دیا کہ علی وزیرِ کو جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
امید ہے دیگر ساتھیوں کو بھی رہائی ملے گی؟
عدالت نے دلائل سننے کے بعد علی وزیر کو اس نکتے کی بنیاد پر ضمانت دینے کا حکم دیا کہ ریاست مخالف تقاریر کے مقدمے میں نامزد دیگر ملزمان کو ضمانت مل چکی ہے تو علی وزیرِ اب تک قید کیوں ہیں۔
اعلیٰ عدالت نے ‘رول آف کنسیٹینسی’ کے تحت علی وزیرِ کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے چار لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے بھی جمع کرانے کا حکم دیا۔
عدالتی فیصلے کے بعد کمرۂ عدالت کے باہر پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے کہا کہ امید ہے کہ علی وزیر کی طرح پی ٹی ایم کے دیگر ساتھیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پراسیکیوٹر علی وزیر پر عائد الزامات کا کوئی دفاع نہیں کر سکی۔ اس بات سے بدنیتی ثابت ہوجاتی ہے کہ اس کیس کے دیگر ملزمان کو پہلے سے ضمانت مل چکی تھی لیکن علی وزیر کو ضمانت نہیں دی جارہی تھی۔
انہوں نے سوال کیا کہ انصاف دکھائی دینا چاہیے، ایک سال تک علی وزیر کو پابند سلاسل رکھا گیا اس کا مداوا کون کرے گا؟
علی وزیرِ پر الزام کیا ہے؟
پشاور پولیس نے 16 دسمبر 2020 کو علی وزیر کو گرفتار کیا تھا جن پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے کراچی میں ایک جلسے کے دوران تقریر کرتے ہوئے مبینہ طور پر ریاستی اداروں کی توہین اور سازش کی کوشش کی تھی۔
پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا جس میں مجرمانہ سازش، مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی، انتشار پیدا کرنے اور فساد پر اکسانے والے بیانات دیے جانے کے الزامات سمیت دیگر الزامات عائد کیے گئے تھے۔
پشاور پولیس کا مؤقف تھا کہ علی وزیر کی گرفتاری سندھ پولیس کی درخواست پر عمل میں لائی گئی ہے، کیوں کہ علی وزیر کے خلاف کراچی کے سہراب گوٹھ تھانے میں مقدمہ درج ہے۔
انسانی حقوق کمیشن نے علی وزیر کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ علی وزیر کو ریاست مخالف الزامات پر مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بطور شہری اظہارِ رائے ان کا آئینی حق ہے۔