اسلام آباد + نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان میں کرتارپور میں گرودوارہ دربار صاحب میں بظاہر پاکستانی ڈیزائنر ملبوسات کے اشتہار کی شوٹنگ کی تصاویر سامنے آنے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے سوشل میڈیا پر تنقید کی جا رہی ہے۔
یہاں ہم آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ گرودوارے میں تصاویر لینا یا خواتین کا جانا ممنوع نہیں لیکن اس جگہ کے احترام میں سر ڈھانپ کر رکھنا ایک ضروری امر ہے جس کی مرد اور خواتین دونوں یکساں طور پر پابندی کرتے ہیں۔
تنقید کی زد میں آنے والی خاتون نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں سکھ برادری سے معافی کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ماڈلنگ کا شوٹ نہیں تھا۔
انھوں نے لکھا کہ ‘میں نے حال ہی میں انسٹاگرام پر ایک تصویر پوسٹ کی جو کسی شوٹ کا حصہ نہیں تھی۔ میں کرتارپور صرف تاریخ اور سکھ مذہب کے بارے میں جاننے کے لیے گئی تھی۔ ایسا کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی اگر میں نے کسی کو دکھ پہنچایا یا انھیں لگتا ہے کہ میں ان کے مذہب کا احترام نہیں کرتی تو میں اس کے لیے معافی مانگتی ہوں۔’
یاد رہے کہ اس سے پہلے انڈین صحافی رویندر سنگھ روبن نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور وزارت مذہبی امور کے آفیشیل اکاؤنٹ کو ٹیگ کرتے ہوئے شکایت کی کہ ’گرودوارے کے صحن میں ایک لاہوری خاتون نے سر ڈھانپے بغیر خواتین کے ملبوسات کی ماڈلنگ کی ہے جس سے بہت سے سکھوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید لکھا تھا کہ نہ صرف شوٹ کیا گیا بلکہ اسے سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیا گیا۔
اس کے جواب میں پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے لکھا کہ ’ڈيزائنر اور ماڈل کو سکھ برادری سے معافی مانگنی چاہیے۔ کرتارپور صاحب ایک مذہبی جگہ ہے نہ کہ کسی فلم کا سیٹ۔‘
The Designer and the model must apologise to Sikh Community #KartarPurSahib is a religious symbol and not a Film set….. https://t.co/JTkOyveXvn
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) November 29, 2021
پاکستان میں پنجاب پولیس نے رویندر سنگھ روبن کی ٹویٹ کے جواب میں کہا ہے کہ وہ اس معاملے کے تمام پہلوؤں کی تحقیات کر رہے ہیں اور یہ کہ برینڈ اور ماڈل سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
Punjab Police are investigating all aspects related to this incident and strict legal action will be taken against responsible. Management of concerned brand & model are being investigated. Worship places of all religions are equally respectable.@MashwaniAzhar https://t.co/HLqwRKmOKY
— Punjab Police Official (@OfficialDPRPP) November 29, 2021
اس سے پہلے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آنے کے بعد ’منت کلاتھنگ‘ نے اپنے اکاؤنٹ پر اس کی وضاحت دی ہے کہ انھوں نے نہ تو یہ شوٹ کروایا اور نہ وہ اس میں شامل ہیں جبکہ یہ تصاویر تیسرے فریق کی جانب سے آئیں تھی۔
اس کے باوجود انھوں نے غلطی کا اعتراف کیا کہ انھیں یہ تصاویر پوسٹ نہیں کرنی چاہیے تھیں اور اب انھوں نے وہ تصاویر ہٹا دی ہیں۔
خاتون کی جانب سے معذرت کا پیغام
تنقید کی زد میں آنے والی خاتون نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں لکھا کہ ‘جب میں وہاں گئی تو میں نے سکھوں اور دوسرے افراد کو تصاویر بناتے دیکھا اور میں نے بھی ان لوگوں کے لیے ان کی بھی بہت سی تصاویر بنائیں۔ میں نے وہاں دوست بنائے۔ سکھ بہت فراخ دل اور پیار کرنے والے لوگ ہیں۔ میں کبھی بھی جان بوجھ کر انھیں دکھ نہیں پہنچا سکتی۔
‘میں سکھ مذہب کا بہت احترام کرتی ہوں اور میں تمام سکھ برادری سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ تمام تصاویر صرف اس یاد کا حصہ ہیں کہ میں وہاں گئی تھی۔ نہ اس سے کچھ زیادہ اور نہ اس سے کچھ کم، تاہم میں مستقبل میں ان چیزوں کے بارے میں زیادہ دھیان رکھوں گی۔’
انھوں نے اخر میں اپنی پوسٹ کو شیئر کرنے کی درخوست کی ہے تاکہ ’لوگوں کو پتا چل سکے کہ میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔‘
انڈیا سے ردعمل
دلی میں شرومنی اکالی دل کے رہنما اور دلی سکھ گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے صدر منجندر سنگھ سرسا نے ملبوسات کی شوٹنگ کرنے والی ماڈل کی تصاویر سامنے آنے کے بعد حکومت پاکستان اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
منجندر سنگھ نے اس کے متعلق کئی ٹویٹ کیے اور لکھا کہ ’اس طرح کا سلوک اور عمل گرو نانک دیو کے مقام پر ناقابل قبول ہے۔ کیا وہ اس طرح کا کام اپنے مذہبی مقام پر پاکستان میں کر سکتی ہیں؟‘
اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے حکومت پاکستان سے گزارش کی کہ اس کے خلاف فوری طور پر سخت کارروائی کی جائے۔
واضح رہے کہ انڈیا اور پاکستان میں اس طرح کے واقعات پہلے بھی رونما ہوئے ہیں جن پر شدید رد عمل دیکھا گیا۔
لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد میں بھی شوٹ پر شور برپا ہوا تھا جبکہ مسجد وزیر خان میں ایک گانے کی شوٹنگ کرنے پر اداکارہ صبا قمر اور گلوکار بلال سعید کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اسی طرح انڈیا میں بظاہر ایک مندر میں بوس و کنار کے ایک منظر پر او ٹی ٹی پلیٹ فارم نیٹ فلکس کے بائیکاٹ کی بات کہی گئی تھی۔
مستورہ حجازی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اسلام میں مذہبی مقامات کی بے حرمتی سختی کے ساتھ ممنوع ہے۔ اس خاتون اور جس برانڈ کی وہ تشہیر کر رہی ہیں اسے تعزیرات پاکستان کے تحت سزا دی جانی چاہیے۔‘
ایک صارف صہیب نہال نے لکھا کہ ’مجھے امید ہے کہ حکومت اس کا نوٹس لے گی۔ کسی کو بھی کسی کے مذہبی مقام کی بے حرمتی کی اجازت نہیں۔‘
پاکستان سے محمد اسامہ نے لکھا: ’یہ بہت زیادہ غیر مہذب ہے۔ تمام مذاہب کا احترام ضرروی ہے۔ ہم سکھ برادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘