اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کی سپریم کورٹ نے کنٹونمنٹ اراضی پر کمرشل سرگرمیوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سیکریٹری دفاع کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دی ہے جس پر اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت نے رپورٹ واپس لینے کی اجازت دے دی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ کیا سنیما، شادی ہال، اسکول اور گھر بنانا دفاعی مقاصد ہیں؟ فوج جن قوانین کا سہارا لے کر کمرشل سرگرمی کرتی ہے وہ غیر آئینی ہیں۔ کنٹونمنٹ کی زمین دفاعی مقاصد پورا ہونے پر حکومت کو واپس کرنی ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ میں کنٹونمنٹ اراضی پر تجارتی عمارات کی تعمیر کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) میاں ہلال حسین پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ سیکریٹری دفاع کو کہیں جو رپورٹ جمع کرائی ہے یہ درست نہیں ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ عمارات گرا دی ہیں جب کہ وہاں عمارتیں اب بھی موجود ہیں۔
اس پر سیکریٹری دفاع نے کہا کہ وہ ان مقامات پر جا کر تصاویر بنا کر نئی رپورٹ مرتب کریں گے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروائی جا رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا جائے۔ اگر فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا تو باقی کو کیسے گرایا جائے گا؟
’فوج کو قانون کون سمجھائے گا؟‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل خالد جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوج کو قانون کون سمجھائے گا؟ فوج کے ساتھ قانونی معاونت نہیں ہوتی۔ فوجی حکام جو چاہتے ہیں کرتے رہتے ہیں۔ فوج جن قوانین کا سہارا لے کر کمرشل سرگرمی کرتی ہیں وہ آئینی نہیں ہیں۔
کراچی کی صورتِ حال کے بارے میں چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کارساز میں سروس روڈ پر بھی بڑی بڑی دیواریں تعمیر کر کے سڑک اندر کر دی گئی ہے۔ کنٹونمنٹ کی زمین کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ پرل مارکی اور گرینڈ کنونشن ہال ابھی تک برقرار ہیں۔ کارساز اور راشد منہاس روڈ پر اشتہارات کے لیے بڑی بڑی دیواریں تعمیر کر دی ہیں۔
چیف جسٹس گلزار نے سوال کیا کہ گلوبل مارکی کی زمین ایک ریٹائرڈ میجر نے لیز پر دے دی۔ کیا ریٹائرڈ میجر کو کسی پرائیویٹ پارٹی کو گلوبل مارکی کی زمین لیز پر دینے کا اختیار تھا؟ اس معاملے میں جو لوگ ملوث تھے ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ گلوبل مارکی سے روزانہ کروڑوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سنیما، شادی ہال اور گھر بنانا اگر دفاعی سرگرمی ہے تو پھر دفاع کیا ہو گا؟ چند لاکھ میں فوجی افسران نے زمین بیچی اب وہ گھر کروڑوں کے ہیں جہاں چھوٹی سی جگہ دیکھتے ہیں وہاں اشتہار لگا دیتے ہیں۔ اتنی بڑی بڑی دیواریں بنانے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ فوجی سرگرمیوں کے لیے گیریژن اور رہائش کے لیے کنٹونمنٹس ہوتے ہیں۔ سی ایس ڈی پہلے صرف فوج کے لیے تھا۔ اب وہاں ہر بندہ جا رہا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کنٹونمٹس کی تمام زمین اصل حالت میں بحال کرنی ہو گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ فوج ملک کے دفاع کے لیے ہے، نہ کہ کاروبار کرنے کے لیے۔
’دیوار اور گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرائیں‘
کراچی کے ایک علاقے کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے حکم دیا کہ کالا پُل کے ساتھ والی دیوار اور گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرائیں۔
سماعت کے دوران پاکستان ائیر فورس کی زمینوں پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل بیس پر اسکول، شادی ہال بھی بنے ہوئے ہیں۔ اگر ایسی صورتِ حال رہی تو کسی دن کوئی بھی شادی کا مہمان بن کر رن وے پر بھاگ رہا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ مسرور بیس اور کورنگی ایئر بیس بند کیے جا رہے ہیں۔ کیا ایئر بیس بند کرکے وہاں کمرشل سرگرمی شروع کریں گے۔
’فوج کو معمولی کاروبار کے لیے بڑے مقاصد پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے‘
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ فوج کو معمولی کاروبار کے لیے اپنے بڑے مقاصد پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ فوج کو اپنے ادارے کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ سمجھ نہیں آتا فوج کو کاروباری سرگرمیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ اور لاہور میں بھی دفاعی زمین پر شاپنگ مالز بنے ہوئے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی وزارتِ دفاع کیسے ان سرگرمیوں کو برقرار رکھے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں پورے ملک کا یہی حال ہے۔ راتوں رات گزری روڈ پر فوج نے بہت بڑی عمارت کھڑی کر دی۔ ہم ابھی سو کر نہیں اٹھے تھے کہ انہوں نے بلڈنگ کھڑی کر دی۔
اس معاملے پر جواب دیتے ہوئے سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) ہلال حسین نے کہا کہ قانون کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کے لیے تینوں افواج کی مشترکہ کمیٹی بنا دی ہے۔
’اعلیٰ فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اعلیٰ فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا۔ فوج ریاست کی زمین پر کمرشل سرگرمیاں کیسے کر سکتی ہے؟ ریاست کی زمین کا استحصال نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع کا مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا یہ کہہ رہے ہیں کہ کمرشل استعمال دفاعی مقاصد کے لیے ہے تو پھر ڈیفنس کس کو کہتے ہیں؟ آپ خود بھی جنرل رہے ہیں آپ کو تو پتا ہو گا۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع سے سوال کیا کہ اگر یہ غیر قانونی عمارتیں رہیں گی تو باقی کے خلاف کیا کارروائی ہو گی؟ یہ فیصلہ ایک روایت بن جائے گا۔
انہوں نے سیکریٹری دفاع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے فوجی حکام نے زمین خریدی اور بیچ کر چلے گئے۔ پھر یہ زمین 10 ہاتھ آگے بکتی گئی۔ اب آپ کیسے واپس لیں گے؟
رپورٹ واپس لینے کے حوالے سے درخواست منظور
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سیکریٹری دفاع کی پہلے والی رپورٹ واپس لینے کے حوالے سے درخواست منظور کرتے ہوئے چار ہفتے میں عمل درآمد رپورٹ طلب کر لی ہے۔
اس سے قبل کراچی میں ہونے والی گزشتہ سماعت پر عدالت نے سیکریٹری دفاع کو تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے دستخط کے ساتھ رپورٹ اور تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کی پالیسی پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جاری رہنے والی تین روزہ سماعت کے پہلے روز 24 نومبر کو ڈائریکٹر ملٹری لینڈ کو بھی طلب کیا گیا تھا اور ان سے ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ کے علاقوں میں تجارتی و رہائشی عمارتیں بنانے کے معاملے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔
’زمینوں اور کاروباروں میں فوج کے شمولیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے‘
پاکستان کی فوج کا ماضی میں مؤقف رہا ہے کہ فوج سے منسلک مختلف کاروباری ادارے مختلف رفاعی کاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان سے حاصل ہونے والی آمدن مختلف فلاحی منصوبوں پر خرچ کی جاتی ہے۔
اس حوالے سے تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان میں زمینوں اور کاروباروں میں فوج کے شمولیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت عدلیہ اور فوج کا تنازع بھی چل رہا ہے۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس اور سابق فوجی صدر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب افتخار چوہدری والے معاملہ پر تنازع ہوا تھا توعدلیہ نے فوج کو چیلنج کیا تھا البتہ اصل میں وہ تنازع پرویز مشرف اور عدلیہ کے درمیان تھا۔
عائشہ صدیقہ نے کہا کہ فوج لڑنے کے لیے ہونی چاہیے۔ زمینیں اور کاروبار چلانے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ عدالتیں اس بارے میں بات تو کر رہی ہیں البتہ یہ معاملہ کہاں تک جائے گا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
’انگریز دور میں بعض قوانین ایسے تھے کہ فوج کو زمین دی جا سکتی تھی‘
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایسا نہ ہو کہ اعلیٰ قیادت کی تبدیلی کے بعد دوبارہ سے وہی سب کام شروع ہو جائیں اور حالات ویسے کے ویسے ہی رہ جائیں۔
عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ فوج میں افسران کو زمینیں ملنا تکنیکی طور پر بدعنوانی ہے ۔ انگریز دور میں بعض قوانین ایسے تھے کہ فوج کو زمین دی جا سکتی تھی البتہ صرف بیرکس وغیرہ کی زمین فوج کی ہوتی تھی۔ باقی زمین استعمال کے بعد واپس کرنی ہوتی تھی۔ لیکن ان قوانین کا غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
فوج کے افسران کو ملنے والی زمینوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 1915 کے قانون کو استعمال کرتے ہوئے زمین لی جاتی ہے اور بعد میں بانٹ دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر سال چولستان میں زمین مشقوں کے لیے لی جاتی ہے اور واپسی پر وہاں زرعی زمین اور فارمز بنا دیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اسے بد عنوانی قرار دیا۔
عائشہ صدیقہ نے خیال ظاہر کیا کہ عدالت کی سماعتوں سے کچھ نہیں ہو گا۔ کچھ ہنگامہ ہو گا۔ خبروں کی اشاعت ہو گی لیکن حقیقت میں کچھ نہیں ہو گا۔
’پاکستان اصل جمہوریت کی طرف جا رہا ہے البتہ اس میں بہت وقت لگے گا‘
دوسری جانب پاکستان کی فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت عدلیہ متحرک ہے اور پاکستان کو آئین کے مطابق چلانا چاہ رہی ہیں ۔ ان کے مطابق عدلیہ چاہ رہی ہیں کہ تمام ادارے آئینی حدود میں رہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کبھی بھی اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکی اور ہمیشہ طاقت کے دو متوازن مراکز رہے ہیں جن میں سے ایک فوج تھی اور دوسری طاقت سیاسی جماعتیں تھیں۔
ان کے مطابق اب سیاسی جماعتیں اور عدلیہ اپنی طاقت منوانا چاہ رہی ہیں۔ پاکستان اصل جمہوریت کی طرف جا رہا ہے البتہ اس میں بہت وقت لگے گا۔ یہ سب ابتدائی اقدامات ہیں۔
جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے کہا کہ آپ ترکی اور انڈونیشیا میں دیکھیں وہاں سب ایسا ہی ہوا۔ اب پاکستان بھی اس طرف جا رہا ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ ایک باقاعدہ مہم ہے جو آہستہ آہستہ تیز ہو گی۔