برلن (ڈیلی اردو) فرینکفرٹ کی ایک عدالت نے منگل کے روز ایک عراقی شخص کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ اس نے یزیدی اقلیت کے خلاف نسل کشی کے لیے اسلامک اسٹیٹ گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔
29 سالہ طحہ ال ‘جے‘ کو نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم جس کے نتیجے میں انسانی جان ضائع ہوئی، جنگی جرائم، جنگی جرائم میں مدد اور اس کی حوصلہ افزائی اور 2013 ء میں آئی ایس میں شمولیت کے بعد یزیدیوں کو جسمانی نقصان اور ان کی موت کا سبب بننے والے مظالم کا مجرم پایا گیا۔ اسلامک اسٹیٹ کے اس سابقہ رکن پر ایک پانچ سالہ بچی کے قتل کا الزام بھی عائد ہے۔ اس بچی کو ملزم نے عراق میں خریدا تھا۔
مجرم کون ہے؟
طہٰ ال ‘جے‘ ایک عراقی شہری ہے۔ سکیورٹی اور رازداری کے قوانین کی وجہ سے اس کا پورا نام نہیں لیا جا رہا تھا۔ یزیدی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک اور ان کی نسل کُشی میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے منظم کردار کے بارے میں جرمنی میں مقدمے کی سماعت میں یہ پہلا ملزم ہے۔ طہٰ ال ‘جے‘ پر جرم ثابت ہو گیا ہے اور اسے عمر قید کی سزا کے تحت باقی عمر آہنی سلاخوں کے پیچھے گزارنا ہوگی۔
اس پر متعدد الزامات تھے جن میں قتل، جنگی جرائم اور انسانیت سوز جرائم شامل ہیں۔ وفاقی جرمن استغاثہ نے عدالت سے اس امر کا ‘اضافی تعین‘ کرنے کو کہا تھا کہ آیا مذکورہ جرائم کی طہٰ ال ‘جے‘ پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا نہیں؟ وفاقی استغاثہ کے اس مطالبے سے اس امر کی طرف نشاندہی ہو رہی ہے کہ ملزم پر عدالت کی طرف سے ان جرائم کے ارتکاب کا فیصلہ سامنے آ جانے کے بعد 15 سال بعد بھی اس کے پیرول کے امکانات بہت کم ہی رہ جائیں گے۔
اُدھر مدعا علیہ کے وکلا نے اُس پر لگے تمام الزامات کی ترید کی۔ طہٰ ال ‘جے‘ کی جرمن بیوی کو گزشتہ ماہ اسی کیس میں ملوث ہونے کے سبب 10 سال کی قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کا موقف
اقوام متحدہ نے یزیدی اقلیتی گروپ کے آبائی وطن عراق میں ان کے خلاف داعش کی پھیلائی ہوئی قتل وغارت گری کو”نسل کُشی‘‘ قرار دیا ہے۔ خاص طور سے 2014 ء کے واقعات کے پس منظر میں۔ اقوام متحدہ کے بقول،” عراق میں چار لاکھ یزیدی باشندے آباد تھے اور ان کی ایک مضبوط برادری تھی تاہم انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے سبب یہ پوری برادری بے گھر اور مکمل طور پر بکھر کر رہ گئی ہے۔
ان سب کو بے گھر ، قید یا جان سے مار دیا گیا۔ عالمی ادارے کے مطابق آئی ایس یا داعش جنگجوؤں کی طرف سے ہزاروں کی تعداد میں قید کیے جانے والے یزیدی باشندوں میں شامل نوجوان لڑکوں کو انتہا پسندوں کی صف میں شامل ہو کر ان کے لیے لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ انہیں زبردستی مذہب تبدیل کرنے کو کہا جاتا اور اگر وہ اپنا مذہب تبدیل کرنے سے انکار کرتے تو انہیں پھانسی دے دی جاتی۔ داعش کے جنگجوؤں کی طرف سے خاص طور سے یزیدی لڑکیوں اور خواتین کو بطور غلام فروخت کیا جاتا رہا ہے۔
جرمن استغاثہ کیا کہتے ہیں
جرمن استغاثہ کے بقول 2015 ء میں شام میں قائم داعش کے ایک اڈے سے طہٰ ال ‘جے‘ نے ایک یزیدی عورت اور اُس کی ایک پانچ سالہ بچی کو بطور غلام خریدا تھا۔ ان دونوں کوعسکریت پسندوں نے اگست 2014 ء کے اوائل میں شمالی عراق میں قیدی بنایا تھا۔ تب سے داعش کے جنگجوؤں کے ہاتھوں یہ دونوں ماں بیٹی کئی بار ایک سے دوسرے گاہک کو فروخت کی گئیں۔ مدعا علیہ نے اس یزیدی خاتون اور اس کی بیٹی کو عراقی شہر فالوجہ میں خرید کر اپنے گھر پر رہنے پو مجبور کیا۔
انہیں سخت اسلامی قوانین کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ طہٰ ال ‘جے پر عائد فرد جرم کے مطابق اس نے ان دونوں ماں بیٹی کو ناکافی خوراک فراہم کی اور انہیں سزا کے طور پر باقاعدگی سے مارا پیٹا جاتا تھا۔
استغاثہ نے الزام لگایا ہے کہ 2015 ء کے آخر تک طہٰ ال ‘جے نے اس بچی کو زنجیروں میں جکڑ کر ایک کھڑکی کی سلاخوں سے باندھ دیا۔ 50 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں اس بچی کو دھوپ میں زنجیر میں جکڑے رکھا جس کے سبب وہ مر گئی۔ اس بچی کو سزا اس لیے دی گئی کہ اس نے مبینہ طور پر بستر گیلا کر دیا تھا۔ قید و صعوبتوں سے بچ جانے والی اس بچی کی ماں نے جرمن شہر فرینکفرٹ کی عدالت میں اپنے اور اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے مظالم کی گواہی دی ہے۔