اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’کسی پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو ریاست کا ردعمل کیا ہو گا۔۔۔ پوری مشینری حرکت میں آ جائے گی۔ ریاست کا ردعمل عام شہری کے غائب ہونے پر بھی یہی ہونا چاہیے۔‘
یہ ریمارکس اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی اور بلاگر مدثر نارو کے لاپتہ ہونے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے۔
بدھ کو اس کیس کی سماعت کے دوران انھوں نے استفسار کیا: ’لاپتہ شخص کی بازیابی کے لیے ریاست کا ردعمل غیر موثر ہے، ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہی، کوئی بھی متاثرہ شخص آئے کہ اس کا کوئی عزیز لاپتہ ہو گیا ہے تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔‘
یاد رہے کہ صحافی و بلاگر مدثر نارو اگست 2018 میں اس وقت لاپتہ ہو گئے تھے جب وہ اپنی اہلیہ صدف اور اس وقت چھ ماہ کے بیٹے سچل کے ہمراہ گھومنے کی غرض سے شمالی علاقہ جات گئے تھے۔ اس کے بعد ان کی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔
مدثر نارو کی گمشدگی کے بارے میں اس سال عدالت میں جمع کروائی گئی پٹیشن کے مطابق 2018 کے انتخابات کے چند روز بعد مدثر کو فون پر کہا گیا کہ وہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کے بارے میں سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنے سے گریز کریں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گذشتہ سماعت پر وکیل ایمان مزاری، جو وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ہیں، کی درخواست پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کو اس کیس میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وفاقی وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو اس لیے زحمت دی کہ ریاست نظر نہیں آ رہی، ملک میں جبری گمشدگیوں کا رجحان ہے، کسی کا لاپتہ ہو جانا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔‘
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ’لاپتہ افراد کی ذمہ داری تو وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان پر آتی ہے، ریاست کے بجائے معاوضے کی رقم وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان کیوں نہ ادا کریں تاکہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ لاپتہ شخص کی اہلیہ بھی چل بسی ہے اور ہدایت کی کہ متاثرہ فیملی کو وزیراعظم کے پاس لے کر جائیں اور کابینہ کے ارکان سے بھی ان کی ملاقات کروائی جائے۔
یاد رہے کہ رواں سال مئی میں، جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں مدثر نارو کی بازیابی کے حوالے سے سماعت کا سلسلہ جاری تھا، مدثر نارو کی اہلیہ صدف کی بھی وفات ہو گئی۔
’وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان لوگوں کی خدمت کے لیے ہیں۔۔۔ یہ سمریوں یا رپورٹس کی بات نہیں۔ لاپتہ شخص کے بچے اور والدین کو مطمئن کریں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی دیکھ بھال کرے اور متاثرہ فیملی کو سنے۔‘
جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا انھیں کہ ایک ہفتے کا مزید وقت دیا جائے تو جسٹس من اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’آپ کیا بات کر رہے ہیں، ایک بندہ تین سال سے لاپتہ ہے اور آپ مزید وقت کا کہہ رہے ہیں۔‘
سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو شخص جس دورِ حکومت میں لاپتہ ہوا ہو، اس زمانے کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرا کر ازالے کی ادائیگی کا کیوں نہ کہا جائے؟ ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں میں صرف ریاست نہیں بلکہ غیر ریاستی عناصر بھی شامل ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی کو تو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔
’اگر کوئی ایک لاپتہ ہو جائے تو اس کا پورا خاندان مشکلات برداشت کرتا ہے۔‘
انھوں نے استفسار کیا کہ ’ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری، یہ ان ہی کا کیا کرایا ہے۔‘
شیریں مزاری: وزیراعظم متاثرہ خاندان کو ضرور سنیں گے
وزیر برائے انسانی حقوق شیریں نے عدالت سے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ حکومت جبری گمشدگی کو سنگین جرم سمجھتی ہے اور جمہوریت میں کسی کو لاپتہ کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی۔
شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم متاثرہ خاندان کو ضرور سنیں گے تاہم وہ پہلے خاندان کے اخراجات کی ادائیگی پر کام کرنا چاہتی ہیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ لاپتہ شخص کے بیٹے اور دادی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی جائے گی تاہم ان کی جانب سے اب تک بیان حلفی نہیں ملا، اس لیے معاوضے اور اخراجات کی ادائیگی نہیں ہو پائی۔
شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ عدالت نے انھیں پہلے بھی قیدیوں کے معاملے پر بلوایا تھا۔ ’جبری گمشدگیوں کا معاملہ ہمارے منشور میں تھا، ہم نے اس بارے میں قانون سازی کی ہے جو سینیٹ میں جلد بھجوائی جائے گی۔‘
عدالت نے وفاقی وزیر سے کہا کہ آپ کوشش کریں کہ متاثرہ خاندان وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مطمئن ہو کر واپس آئیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے قانون کی حکمرانی ہو ورنہ ایسے واقعات کو نہیں روکا جا سکتا، جس پر شیریں مزاری نے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے اس پر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی تاہم ان کی حکومت اس پر کام کر رہی ہے۔
عدالت نے حکومت کو 13 دسمبر تک صحافی اور بلاگر مدثر نارو کے خاندان کو مطمئن کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری سے جواب طلب کر لیا ہے۔
پولیس نے وقوعہ سے شواہد جمع کرکے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر بھیج دی۔
اس حوالے سے ایس ایس پی ایسٹ قمر رضا نے واضح کیا کہ متقول سندھ بار کونسل کے سیکریٹری تھے اور وکلا برادری کے انتطامی امور کی دیکھ بھال کے فرائض انجام دیتے تھے۔
سینئر حکام نے کہا کہ بظاہر یہ ٹارکٹ کلنگ کا واقعہ ہے لیکن باقاعدہ تحقیقات کے بعد ہی قتل کے اصل اسباب کی نشاندہی ہوسکے گی۔
حکام نے بتایا کہ عرفان علی مہر اپنے بچے کو اسکول چھوڑ کر گھر واپس آرہے تھے جب انہیں نامعلوم ملزمان نے ان پر فائرنگ کردی۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ موٹرسائیکل پر مسلح ملزمان نے قریب سے سندھ بار کونسل کے عہدیدار کو نشانہ بنایا۔
واقعہ کے بعد وکلا برادری نے غصہ کا اظہار کیا اور سٹی کورٹ میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا اور متعدد وکلا وقوعہ پر بھی پہنچ گئے۔