دنیا کو ایران کیخلاف سخت موقف اختیار کرنیکی ضرورت ہے، اسرائیلی وزیر اعظم

ویانا (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) اسرائیلی وزیر اعظم نے عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات فوری طور پر ختم کر دیں۔ لیکن ایران کا کہنا ہے کہ ویانا میں سفارت کار اسرائیل سے ہدایات نہیں حاصل کریں گے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نفیتالی بینٹ نے مغربی طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تہران پر یہ واضح کر دیں کہ ایران یورینیم افزودہ کرنے کے ساتھ ہی جوہری امور پر مذاکرات نہیں جاری رکھ سکتا۔ انہوں نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایران، “جوہری بلیک میل کو مذاکراتی حربے کے طور پر استعمال کرنے کوشش کر رہا ہے۔”

سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں مذاکرات ہو رہے ہیں، جس میں دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ امریکا بھی بالواسطہ طور پر شامل ہے۔ لیکن اسرائیل اس معاہدے کی بحالی اور اس حوالے سے بات چيت کا مخالف ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم حالیہ دنوں میں کئی بار اس بات چیت کی مخالفت کر چکے ہیں۔ انہوں نے اتوار کو اپنی کابینہ کو بتایا، “میں ویانا میں ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے والے ہر ملک پر زور دیتا ہوں کہ وہ ایک مضبوط لائحہ عمل اختیار کریں اور ایران پر واضح کر دیں کہ وہ ایک ہی وقت یورینیم کی افزودگی اور مذاکرات جاری نہیں رکھ سکتا۔”

اتوار کے روز ان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا، “وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ایران مذاکراتی حربے کے طور پر ‘جوہری بلیک میلنگ’ کر رہا ہے اور بڑی طاقتوں کے ٹھوس اقدامات کے ذریعے ان مذاکرات کو فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے۔”

اتوار کے روز ہی اسرائیل کے اعلیٰ دفاعی اور انٹیلیجنس حکام تبادلہ خیال کے لیے واشنگٹن کے دورے پر گئے ہیں اور اسی موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بات کہی۔ اس سے قبل جمعرات کے روز بھی انہوں نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن سے فون پر اس حوالے سے بات چيت کی تھی۔

اس وقت بھی انہوں نے جوہری امور کے بین الاقوامی نگراں ادارے آئی اے ای اے کی اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے امریکا سے ایران کے خلاف سخت موقف اپنانے کی بات کہی تھی کہ ایران نے بیس فیصد تک یورینیم افزودہ کر لی ہے جو معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

سن 2015 کے معاہدے کے تحت ایران کو صرف تین اعشاریہ 67 فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت ہے، جس کی مدد سے جوہری ایندھن تیار کیا جا سکتا ہے۔ تاہم 2018 میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکا کو یکطرفہ طور پر الگ کر لیا تھا اور ایران پر دوبارہ سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

اس کے رد عمل میں ایران نے بھی معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور اس نے معاہدے کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں۔ ایران نے یورینیم کی مقررہ حد سے زیادہ افزودگی کی بات تسلیم کی ہے۔ اس نے اس کے لیے جدید مشینوں کا بھی استعمال شروع کیا ہے۔

ایران کا رد عمل

ادھر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینٹ کے بیان کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، “اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ وہ حکومت مذاکرات کو ہمیشہ حقیر سمجھتی ہے، جس کا وجود جنگ، کشیدگی اور دہشت گردی پر ہے۔”

انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم کی سرکاری رہائش سے جاری ہونے والے بیان کی طرف اشارہ کرتے مزید کہا، “ویانا میں سفارتی مندوب بیت اغیون سے ہدایات نہیں لیں گے۔”

اس سے قبل، ایران کے چیف جوہری مذاکرات کار نے کہا تھا کہ انہوں نے، یورپی طاقتوں کے ساتھ تین دن کی بات چیت کے بعد، پابندیوں کے خاتمے اور جوہری عزائم سے متعلق اپنا مسودہ انہیں پیش کر دیا ہے۔

ویانا مذاکرات پر مایوسی

آسٹریا کے دارالحکومت میں ہونے والی بات چیت میں امریکا بھی بالواسطہ طور پر شامل ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد دونوں ممالک کو دوبارہ بورڈ پر لانا ہے۔ تاہم دو دسمبر کو امریکا اور ایران دونوں نے ہی اس بات چيت کے حوالے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ”میں بتانا چاہتا ہوں کہ حالیہ سرگرمیاں اور بیان بازی، ہمیں پر امید ہونے کا بہت زیادہ سبب نہیں فراہم کرتی ہیں۔ گرچہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے”

ایران نے بھی اس معاہدے میں دوبارہ جان ڈالنے کے امکان پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ ایرانی میڈیا نے ملک کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے حوالے کہا تھا، ”ہم سنجیدہ عزم کے ساتھ ویانا گئے تھے، لیکن اس معاہدے کے حوالے سے امریکا اور تین یورپی فریقوں کی مرضی اور ان کے ارادوں کے بارے میں ہم پر امید نہیں ہیں۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں