پیرس (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایک سعودی شخص جس پر صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کا شک ہے اس کو فرانس میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
فرانسیسی اخبارات کے مطابق خالد العتیبی کو چارلز ڈیگال کے ہوائی اڈے سے منگل کے روز حراست میں لیا گیا۔
خالد العتیبی ان 26 افراد میں شامل ہیں جن پر الزام ہے کہ انھوں نے استنبول کے سعودی عرب کے قونصل خانے میں جمال خاشقجی کو قتل کر کے ان کی لاش کو ٹھکانے لگانے میں حصہ لیا تھا۔
فرانسیسی ریڈیو آر ٹی ایل کے مطابق 33 سالہ خالد العتیبی جو سعودی عرب کے شاہی گارڈ رہ چکے ہیں اپنے اصلی نام پر سفر کر رہے تھے جب انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
خاشقجی جو سعودی حکومت پر تنقید کرنے والوں میں شامل تھے انھیں استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں اکتوبر سنہ 2018 میں قتل کر دیا گیا تھا۔
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے سابق صحافی کا قتل ایک ایسے کارروائی میں ہو گیا تھا جس میں سعودی ایجنٹوں کو انھیں قائل کر کے سعودی عرب لانے کا کہا گیا تھا۔
لیکن ترک حکام کے مطابق یہ ایجنٹ اعلیٰ ترین سطح پر جاری کیے گئے احکامات کی بجا آوری کر رہے تھے۔
اس قتل پر پوری دنیا میں شور مچ گیا تھا اور سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان جو عملآً سعودی عرب کی ریاست چلا رہے ہیں انھیں اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ انھوں نے اس میں ملوث ہونے کے الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔
سعودی عرب کی ایک عدالت نے سنہ 2019 میں آٹھ افراد کو جن کے نام ظاہر نہیں کیئے گئے انھیں اس قتل کا مجرم ٹھہراتے ہوئے سزائیں سنائی تھیں۔ان میں پانچ افراد کو براہ راست قتل میں ملوث ہونے پر موت کی سزا سنائی گئی تھی جس میں بعد میں تخفیف کر کے 20 سال قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا جبکہ تین دیگر مجرموں کو سات سے دس سال تک قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
سعودی عرب میں چلائے گئے مقدمے کو انصاف سے مذاق قرار دے کر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ایگنے کالامارد نے رد کر دیا تھا اور یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ خاشقجی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل کیا گیا۔
کالامارد کی رپورٹ کے مطابق استغاثہ نے خالد العتیبی کو خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں شامل کیا تھا لیکن بعد میں ان پر مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔
لیکن العتیبی کا نام ترکی کی پولیس کی طرف سے جاری ہونے والے وارنٹس میں شامل ہے اور ان کی عدم موجودگی میں ان پر مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔