ڈھاکا (ڈیلی اردو) بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے بدھ کو بیس طلباء کو ایک ساتھی طالب علم کو قتل کرنے میں جرم میں سزائے موت سنائی ہے۔ یہ واقعہ اکتوبر 2019 میں رونما ہوا تھا۔
مقامی میڈیا کے مطابق اکیس سالہ ابرار فہد نامی نوجوان کو قتل کرنے کے جرم میں عدالت نے پانچ دیگر طلباء کو عمر قید کی سزا بھی سنائی ہے۔
ابرار فہد کو تشدد کر کے قتل کیا گیا تھا۔ اسے کئی گھنٹے کرکٹ بیٹ اور دیگر اشیاء کے ساتھ مارا پیٹا گیا تھا۔ فہد نے فیس بک پر حکومت کے خلاف ایک پوسٹ شیئر کی تھی۔ اس قتل کے بعد بنگلہ دیش کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ملزمان کو”کڑی سزا‘‘ دلوانے کا وعدہ کیا تھا۔
فہد کے خاندان کا عدالتی فیصلے کا خیر مقدم
فہد کے والد برکت اللہ نے عدالتی فیصلے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،”میں اس فیصلے سے بہت خوش ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ سزائیں جلد دے دی جائیں گی۔”
فہد بنگلہ دیش کی انتہائی معتبر تعلیمی ادارے، بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں اسٹوڈنٹ تھے۔ سزائیں ملنے والے تمام طلباء کی عمریں بیس سے بائیس برسوں کے درمیان ہیں اور فہد کو قتل کرنے والے بھی اسی ہی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ بیس میں سے تین مجرمان مفرور ہیں۔ مجرمان کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔
فہد ابرار کے ساتھ کیا ہوا تھا
اکتوبر 2019 میں فہد نے فیس بک پر حکومت کی جانب سے بھارت کے ساتھ پانی کی ایک ڈیل سے متعلق ایک تنقیدی پوسٹ شیئر کی تھی۔ فہد کو نشانہ بنانے والے طلباء کا تعلق بنگلہ دیش کی حکمراں سیاسی جماعت عوامی لیگ سیاسی جماعت کے یوتھ ونگ سے تھا۔ بنگلہ دیش چھاترا لیگ نامی اسٹوڈنٹ گروپ کو دوسرے طلباء کو تشدد کا نشانہ بنانے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ فہد کی پوسٹ پر ناراض ان طلباء نے فہد کو تشدد کا نشانہ بنایا جس میں وہ جانبر نہ ہوسکا۔