گوادر (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کے خلاف مقدمے کے بعد جمعے کو ایک احتجاجی ریلی میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار انور ساجدی کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کی بہت بڑی تعداد میں شرکت کے حوالے سے اسے اگر گوادر میں سمندر کے ساتھ انسانوں کے سمندر سے تشیبہ دی جائے تو بے جانہ ہوگا۔‘
خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد نہ صرف اس ریلی میں شرکت کے لیے نکلی بلکہ جب دھرنے پر بیٹھے مرد ریلی کے لیے روانہ ہوئے تو ان کی جگہ خالی نہیں ہوئی بلکہ خواتین نے اسے سنبھال لیا۔
اطلاعات کے مطابق شہر میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے اور گذشتہ شب یہ خدشہ پایا جا رہا تھا کہ مولانا ہدایت الرحمان کو گرفتار کر لیا جائے گا مگر تاحال یہ نہیں ہوا۔
خیال رہے کہ گوادر میں یہ دھرنا گذشتہ 26 روز سے جاری ہے جو 15 نومبر کو پورٹ روڈ سے شروع ہوا اور ان کے مطالبات میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور غیر قانونی فشنگ کی روک تھام شامل ہیں۔
انور ساجدی نے کہا ہے کہ لوگوں کی شرکت کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ نہ صرف حکومت اور اس کی پالیسیوں سے ناراض ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں سے بھی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق جہاں اس تحریک میں لوگوں کی شرکت زیادہ ہے وہیں اس کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ خواتین بھی شرکت کے حوالے سے مردوں سے پیچھے نہیں۔
رات سے خواتین اور مردوں کی بڑی تعداد گھروں سے کیوں نکلی ہوئی ہے؟
جمعرات کی شب گوادر میں جب پولیس کی بھاری نفری پہلی مرتبہ ’حق دو‘ تحریک کے دھرنے کے قریب پہنچی تو خواتین بھی مردوں سے پیچھے نہیں رہیں اور ان کی بڑی تعداد بھی دھرنے میں شرکت کے لیے پہنچ گئی۔
گوادر کے سینیئر صحافی بہرام بلوچ کا کہنا ہے کہ رات کو بھی اپنے گھروں سے نکل کرگوادر کی خواتین نے نہ صرف شہر بلکہ بلوچستان بھر میں تاریخ رقم کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی بھاری نفری جب دھرنے کے قریب آئی تو دھرنے کے شرکا کی تعداد میں کوئی کمی آنے کی بجائے کئی گنا اضافہ ہوا۔
دھرنے کے آغاز سے لے کر اب تک مذاکرات کے کئی راﺅنڈ کے بعد بھی دھرنا ختم نہ ہونے کے باعث گذشتہ سنیچر سے بلوچستان کے دیگر علاقوں سے بھی پولیس کی بھاری نفری گوادر بھیج دی گئی ہے۔
محکمہ پولیس کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق گوادر میں باہر سے مجموعی طور پر 5500 پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کے احکامات جاری کیے گئے۔
ان میں سے 2200 اہلکاروں کا تعلق بلوچستان کانسٹیبلری سے جبکہ باقی اہلکاروں کا تعلق ریگولر پولیس سے ہے۔
ریگولر پولیس کے اہلکار جعفرآباد، مستونگ ،زیارت، پنجگور، خضدار، تربت، نصیرآباد ،قلات ،کچھی، خاران، سبی اور لسبیلہ سے بھیجے گئے ہیں۔
اس دھرنے کی حمایت میں تین بڑی ریلیاں نکالی گئیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی ریلیاں بھی شامل تھیں۔ نہ صرف دھرنا بلکہ اس کی حمایت میں نکالی جانے والی ریلیاں بھی اب تک پُرامن رہی ہیں مگر جمعرات کو پہلی مرتبہ کشیدگی کے آثار دکھائی دیے۔
بہرام بلوچ نے اس کی وجہ بزرگ سیاسی رہنما اور دانشور یوسف مستی خان کی گرفتاری کو قرار دیا۔
انھوں نے بتایا کہ یوسف مستی خان طبیعت کی خرابی کے باوجود اس دھرنے سے اظہار یکجہتی کے لیے گوادر آئے اور انھوں نے گزشتہ شب دھرنے سے جو خطاب کیا اس پر نہ صرف ان کے خلاف بلکہ دھرنے کے قائد مولانا ہدایت الرحمان کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا۔
گوادر پولیس تھانے میں اس حوالے سے درج ایف آئی آر کے مطابق یہ مقدمہ پولیس کی جانب سے ان کے خلاف ریاست پاکستان، مسلح افواج اور خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر درج کیا گیا۔
یوسف مستی خان کو پولیس نے گوادرشہر میں کسی گھر سے گرفتار کیا تھا۔ ان کو جمعرات کو مقامی عدالت میں پیش کر کے ان کا ایک روزہ ریمانڈ حاصل کیا گیا۔
یوسف مستی خان کی گرفتاری پر دھرنے کے قائد مولانا ہدایت الرحمان نے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ان کو رہا نہ کیا گیا تو جمعرات کو عصر کے بعد گوادر پولیس سٹیشن کا گھیراﺅ کیا جائے گا تاہم فوری طور پر ڈپٹی کمشنر کے دھرنے کے مقام پر پہنچنے اور ہدایت الرحمان سے مذاکرات کے بعد تھانے کے گھیراﺅ کے پروگرام کو مؤخر کیا گیا۔
تاہم مغرب کے وقت پولیس کی بھاری نفری دھرنے کے قریب پہنچ گئی۔
بہرام بلوچ نے بتایا کہ جب پولیس کی بھاری نفری دھرنے کے قریب پہنچی تو کسی تصادم کے خدشے کے پیش نظر دھرنے کے شرکا میں کوئی کمی تو نہیں بلکہ شہر سے لوگوں کی بڑی تعداد نے دھرنے کا رخ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اپنے گھروں سے نکلیں اور نعرے بازی کرتی ہوئی دھرنے میں پہنچیں۔
انھوں نے بتایا کہ لوگوں کی بڑی تعداد میں آنے کے بعد پولیس کی بھاری نفری آہستہ آہستہ واپس چلی گئی۔
بہرام بلوچ نے بتایا کہ اگرچہ پہلی مرتبہ رات کو بھی گوادر میں خواتین کی بڑی تعداد گھروں سے نکل آئی لیکن ان میں ماسی زینی نمایاں تھیں کیونکہ وہ اپنا بستر سرپر رکھ کر دھرنے میں پہنچ گئی۔
ماسی زینی کون ہیں؟
بہرام بلوچ نے بتایا کہ ماسی زینی گوادر کی ایک معروف سماجی کارکن ہیں، جو نہ صرف گوادر میں حق دو تحریک میں متحرک ہیں بلکہ اس سے قبل بھی لوگوں کے مسائل کے حوالے سے متحرک رہی ہیں۔
ماسی زینی نے اس موقع پر کہا کہ مولانا ہدایت الرحمان اپنی بوڑھی والدہ اور گھر والوں کو چھوڑ گزشتہ کئی روز سے اس دھرنے میں ان کے لیے بیٹھے ہیں تو اب جب پولیس ان کو گرفتار کرنے آئی تو وہ کیسے گھر میں بیٹھ سکتی تھی۔
ایک ویڈیو میں وہ کہتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ وہ اور دیگر خواتین کس بھی صورت میں مولانا ہدایت الرحمان کو گرفتار نہیں ہونے دیں گے۔
ایک اور خاتون نے بتایا کہ ہمارا احتجاج پرامن ہے لیکن یہاں بہت بڑی فورس لائی گئی ہے۔
بہرام بلوچ نے بتایا کہ خواتین بھی مردوں کی طرح رات بھر دھرنے میں شریک ہونا چاہتی تھیں لیکن مولانا ہدایت الرحمان نے ان سے گھر جانے کو کہا جس پر وہ گھروں کو چلی گئیں۔
مولانا ہدایت الرحمان نے گرفتاری کے لیے آنے والے پولیس افسروں کو کیا کہا؟
مقدمے کے اندراج کے بعد پولیس کی بھاری نفری دھرنے کے قریب آکر رک گئی اور دو پولیس افسر مولانا ہدایت الرحمان کے پاس آ گئے۔
ایک ویڈیو میں یہ نظر آ رہا ہے کہ وہ سٹیج پر مولانا ہدایت الرحمان کے سامنے بیٹھے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمان پولیس اہلکاروں سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے خلاف یہ ایف آئی آر کس نے درج کرائی۔ ’کیا یہ ایف آئی آر آئی ایس آئی کے کرنل نے کرائی یا ایم آئی اے کے کرنل نے۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ گرفتاری سے ڈرنے والے نہیں اور وہ جب گرفتاری دیں گے تو اپنے شوق سے دیں گے۔
فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان نے بتایا کہ انھوں نے پولیس والوں سے پوچھا کہ انھیں کس نے گرفتاری کا حکم دیا ہے تو انھوں نے بتایا کہ آئی جی پولیس بلوچستان نے انھیں گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان کے مطابق انھوں نے پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ وہ جمعے کو ہونے والی ریلی سے پہلے گرفتاری نہیں دیں گے۔
واضح رہے کہ حق دو تحریک نے آج نماز جمعہ کے بعد گوادر شہر میں بڑی احتجاجی ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔
دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ ریلی ہر حالت میں نکالی جائے گی۔ انھوں نے دھرنے کے شرکا سے کہا کہ اگر وہ گرفتار ہو بھی گئے تو آپ لوگوں نے ریلی نکالنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا دھرنا پر امن ہے تاہم اگر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو شاید ان کے پاس گرفتاریوں کے لیے جگہ نہ ہو۔
پولیس کی بھاری نفری کی تعیناتی کے حوالے سے سرکاری حکام کا کیا کہنا ہے؟
سینیچر کے روز بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کیے تھے۔
مذاکرات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ضیا اللہ لانگو نے کہا تھا کہ پولیس کی نفری یہاں کسی کے خلاف کارروائی کے لیے نہیں بھیجی گئی بلکہ اضافی نفری یہاں حفظ ماتقدم کے طور پر بھیجی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت دھرنے کو زبردستی اٹھانا چاہتی تو پہلے دن اٹھا سکتی تھی اور حکومت کے لیے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گوادر نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کا ایک اہم علاقہ ہے۔ کل خدانخواستہ یہاں کچھ ہو جائے تو لوگ پھر یہی کہیں گے کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا۔‘
مکران ریجن کے پولیس کے سربراہ ڈی آئی جی جاوید جسکانی نے بتایا کہ جہاں تک دھرنے کی بات ہے وہ تو پر امن ہے لیکن کوئی بھی شرپسند اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اس لیے پولیس کی اضافی نفری یہاں کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے بلائی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک کوئی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرے گا تو اس وقت تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔
دھرنا کیوں ختم نہیں کیا جا رہا؟
گوادر میں ’حق دو‘ تحریک کے زیر اہتمام جو دھرنا اور احتجاج کیا جارہا ہے اس کی جانب سے مجموعی طور پر 19 مطالبات پیش کیے گئے ہیں۔
ان میں سب سے اہم مطالبات بلوچستان کی سمندری حدود سے ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کا خاتمہ اور ایران کے ساتھ سرحدی تجارت پر عائد پابندی کا خاتمہ ہے۔
جہاں 15 نومبر سے ان مطالبات کے حوالے سے دھرنا جا رہی ہے وہاں شہر میں تین ریلیاں نکالی گئیں جن میں مردوں کے کفن پوش جلوس کے علاوہ خواتین اور بچوں کی ریلیاں شامل تھیں۔
بچوں اور خواتین کی جو ریلیاں نکالی گئیں مبصرین کے مطابق وہ نہ صرف گوادر بلکہ بلوچستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلیاں تھیں۔
اب تک جو مذاکرات ہوئے ان میں اہم مطالبات کو تسلیم کرنے کے حوالے سے چار نوٹیفیکیشن جاری کیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک نوٹیفیکیشن بلوچستان کی سمندری حدود میں ٹرالروں کے ذریعے ماہی گیری پر پابندی اور ان کے خلاف کارروائی، دوسرا سرحد پر نقل وحمل کی مانیٹرنگ فرنٹیئر کور کی بجائے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کرنے، کوسٹ گارڈ کی تحویل میں لوگوں کی جو گاڑیاں ہیں ان کو چھڑانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے معاونت فراہم کرنے اور گوادر میں امن و امان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر شراب کی دکانوں کو تاحکم ثانی بند کرنے سے متعلق تھے۔
ان نوٹیفیکیشنوں کے اجرا کے بعد دھرنے کے شرکا نے شاہراہوں کی بندش کے اعلان پر عملدرآمد کے فیصلے کو مؤخر کرنے کا اعلان تو کیا مگر دھرنے کو ختم نہیں کیا۔
ان نوٹیفیکشنوں کے اجرا کے بعد وزرا کی جانب سے شرکا سے دھرنے کو فوری طور پر ختم کرنے کا کہا گیا مگر دھرنے کے شرکا نے کہا کہ وہ تین دن تک ان پر عملدرآمد کا جائزہ لیں گے اور اس کے بعد دھرنے کو ختم کرنے یا جاری رکھنے کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔
دھرنے کے ختم نہ کرنے سے متعلق سوال پر مولانا ہدایت الرحمان نے بتایا کہ مطالبات تسلیم کرنے اور عملدرآمد میں فرق ہے۔
انھوں نے بتایا کہ حکومتی وزرا یہ کہتے ہیں کہ مطالبات تسلیم کیے گئے ہیں لیکن ہمارا یہ کہنا ہے کہ مطالبات پہلے بھی تسلیم کیے گئے تھے لیکن عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ دھرنے کے شرکا عملی اقدامات اور عمل درآمد چاہتے ہیں یہ لوگ عملدرآمد کرائیں تو ہم دھرنے کو ختم کرانے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔