انگلینڈ (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/روئٹرز) دنیا کے طاقتور ملکوں کے بلاگ جی سیون کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدے پر اتفاق رائے کے لیے وقت تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ایران نے مذاکرات میں “مثبت پیش رفت” کا عندیہ دیا ہے۔
دنیا کے سات دولت مند ملکوں کے بلاک گروپ جی سیون کی دو روزہ میٹنگ انگلینڈ کے لیور پول میں منعقد ہوئی۔ اس اہم اجلاس میں جی سیون ممالک کے وزرائے خارجہ نے دیگر امور کے علاوہ ایران کے جوہری عزائم پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ میٹنگ میں عالمی خطرات کے خلاف ایک متحد محاذ پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔
میزبان برطانیہ کی وزیر خارجہ لز ٹرس نے کانفرنس کے اختتام پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کے لیے معاہدے پر اتفاق رائے کے لیے وقت تیزی سے ختم ہورہا ہے۔
لز ٹرس کا کہنا تھا کہ ویانا میں دوبارہ شروع ہونے والی بات چیت اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے”ایک سنجیدہ سوچ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کا آخری موقع ہے۔” انہوں نے کہا ” ایران کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ معاہدے پر راضی ہوجائے۔” یہ پہلا موقع ہے جب جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے کسی ملک نے مذاکرات کے حوالے سے الٹی میٹم دیا ہے۔
جی سیون کے اجلاس کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ایران ” اپنی جوہری توسیع کو فوراً روک دے اور اس موقع کا معاہدہ کرنے کے لیے استعمال کرے، جو اب بھی ممکن ہے۔”
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کے لیے جمعرات کو مذاکرات ویانا میں دوبارہ شروع ہوئے تھے۔ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018میں اس معاہدے سے امریکا کو یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا۔
ایران کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف سویلین مقاصد کو فروغ دینا چاہتا ہے لیکن مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ اس کے افزودہ یورینیم کا ذخیرہ اس سے کہیں زیادہ ہے اور اسے جوہری ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ان کی انتظامیہ معاہدے میں واپس ہونے کے لیے تیار ہے۔ امریکی عہدیداروں کا الزام ہے کہ ایران رواں برس مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
ایران کا مثبت پیش رفت کا دعویٰ
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں۔
ویانا جوہری مذاکرات میں شامل ایران کے چیف مذاکرات کار علی باقری کنی نے مذاکرات میں پیش رفت کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ فریقین “ان معاملات پر اتفاق رائے پر پہنچنے والے ہیں جو ایجنڈے میں ہونے چاہئیں۔”
علی باقری نے ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،”یہ ایک مثبت اور اہم پیش رفت ہے، کیونکہ شروع میں تو دونوں میں اتفاق ہی نہیں تھا کہ کن معاملات پر مذاکرات کرنے ہیں۔”
باقری کا کہنا تھا کہ جون میں اقتدار میں آنے والی نئی ایرانی انتظامیہ نے اپنی پیش رو انتظامیہ کی جانب سے پیش کیے گئے معاملات کے علاوہ بھی مذاکرات کے لیے اضافی نکات شامل کیے ہیں۔
ایران سابق صدر ٹرمپ کی معاہدے سے الگ ہوجانے کے بعد تہران پر عائد کی گئی پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے، مگربائیڈن انتظامیہ کاکہنا ہے کہ وہ صرف جوہری پروگرام پر لیے گئے سابق صدر کے اقدامات پر مذاکرات کرے گی، انسانی حقوق اور اس جیسے دیگر معاملات پر لیے گئے اقدامات پر نہیں۔ ایران نے مذاکرات میں دو مسودے پیش کیے ہیں، ایک پابندیوں کے حوالے سے اور ایک اس کی جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے۔