اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد کی ایک عدالت نے ‘غیر ملکی سفیر/ایجنٹ’ کو خفیہ معلومات لیک کرنے کے الزام میں گرفتار پولیس اہلکار کو جسمانی ریمانڈ پر پیر تک ایف آئی اے کے حوالے کر دیا ہے۔
گرفتار پولیس اہلکار اے ایس آئی ظہور احمد کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مقدمے کا اندراج پیر کو کیا گیا جبکہ منگل کو ملزم کو ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد فیضان حیدر گیلانی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے انسداد دہشت گردی وِنگ کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق گولڑہ پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر اے ایس آئی کو خفیہ دستاوزات یا معلومات ’غیر ملکی سفیر/ایجنٹ‘ کو دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ اے ایس آئی کی گرفتاری سے ایف آئی اے نے آگاہ کیا ہے جبکہ پولیس نے بھی تحقیقات میں ہر ممکن تعاون کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
ایف آئی آر میں درج الزامات اور واقعہ
جس دن یہ مبینہ واقعہ پیش آیا اس حوالے سے ایف آئی اے کی جانب سے درج ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ باوثوق ذریعے کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ اے ایس آئی گولڑہ ظہور احمد ایک غیر ملکی سفر/ ایجنٹ سے ملاقات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
ایف آئی آر میں متعلقہ شخص کی سفید رنگ کی ٹیوٹا کرولا کا رجسٹریشن نمبر بھی درج ہے اور ساتھ لکھا گیا ہے کہ اے ایس آئی کی اس ملاقات کا مقصد خفیہ معلومات یا دستاویزات فراہم کرنا تھا جو کہ ملکی مفاد کے خلاف ہے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اے ایس آئی نے غیر ملکی سفیر یا ایجنٹ سے میٹرو بس سٹیشن کے پاس جناح ایونیو پر ملنا تھا۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ان معلومات کی بنا پر ایک ٹیم تشکیل دی گئی جو وہاں پہنچی۔
بتایا گیا ہے کہ وہاں موجود ذریعے نے تصدیق کی کہ ٹیوٹا کرولا میں جس کے شیشے کالے تھے، اے ایس آئی کو کہیں لے جایا گیا ہے تاہم ایف آئی اے کی ٹیم کو تجویز دی گئی کہ وہ وہیں انتظار کریں۔
ایف آئی آر کے مطابق کچھ دیر بعد وہی ٹیوٹا کرولا اے ایس آئی کو واپس اسی مقام پر اتار کر چلی گئی جس کے بعد ایف آئی اے کی ٹیم نے انھیں گرفتار کر لیا۔
ایف آئی اے کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ اے ایس آئی کے پاس دو فون تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا لیکن وہ غیر ملکی سفیر کے ساتھ اپنی ملاقات کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکا۔
ایف آئی اے کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ ملزم نے موقع پر ہی انکشاف کیا کہ وہ غیر ملکی سفیر/ ایجنٹ کو خفیہ معلومات یا دستاویزات فراہم کرنے کے بدلے پیسے لے رہا ہے۔ ایف آئی آر میں درج ہے کہ بادی النظر میں اے ایس آئی کا یہ اقدام 1923 کے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور انسداد کرپشن ایکٹ 1947 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔
ایف آئی اے کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ اے ایس آئی کی تحویل سے 50 ہزار کیش، اے ٹی ایم کارڈز اور یو ایس بی بھی برآمد ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ 30 نومبر کو اسی اے ایس آئی کی مبینہ گمشدگی کی خبریں سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی تھیں تاہم پولیس نے ان کی گمشدگی کا کوئی مقدمہ درج نہیں کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اس کے بعد ان کے فون سے ان کی اہلیہ کو ایک پیغام موصول ہوا تھا کہ وہ مری گئے ہوئے ہیں اور دو روز بعد وہ گھر واپس پہنچ گئے تھے۔
پولیس ذرائع نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ اے ایس آئی مری نہیں گئے تھے تاہم ان کی گمشدگی کے پیچھے کیا وجوہات تھیں اور انھیں اب کس غیر ملکی سفیر یا ایجنٹ سے ملنے پر گرفتار کیا گیا ہے اس بارے میں پولیس حکام بات کرنے سے گریزاں ہیں۔