واشنگٹن ڈی سی (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ فوری طور پر 10 ارب ڈالر کی رقوم طالبان کو جاری کرنے کا کوئی فوری اقدام زیر غور نہیں ہے، اس رقم کو 15 اگست کو طالبان کی جانب سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد منجمد کر دیا گیا تھا۔
معمول کی روزانہ بریفنگ کے دوران پریس سیکرٹری جین ساکی نے پیر کی شام اخبار نویسوں کو بتایا کہ ”ان اثاثوں تک رسائی نہ ملنے کی کئی ایک وجوہات ہیں”۔
Tune in for a briefing with Press Secretary Jen Psaki. https://t.co/KNz632Ub3N
— The White House (@WhiteHouse) December 14, 2021
انھوں نے کہا کہ یہ ایک ”پیچیدہ معاملہ ہے”، اور یہ کہ،انتظامیہ ”بہت باریک بینی کے ساتھ اور اتحادیوں اور شراکت داروں سے رابطے میں رہ کر اس کا جائزہ لیتی رہتی ہے”۔
افغان وزیر خارجہ، امیرخان متقی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں امریکہ اور دیگر ملکوں سے مطالبہ کیا تھا کہ افغانستان کے منجمد اربوں ڈالر جاری کیے جائیں، یہ کہتے ہوئے کہ ”غیر مستحکم افغانستان کسی کے مفاد میں نہیں ہو گا”۔
ساکی نے کہا کہ ان رقوم کے معاملے میں ایک مسئلہ یہ لاحق ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے قانونی چارہ جوئی کر رکھی ہے، جس سلسلے میں طالبان کے خلاف فیصلوں کا امکان موجود ہے۔
بقول ساکی، ”اس قانونی کارروائی کو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، جس کی وجہ سے عارضی طور پر ان رقوم کے حوالے سے تعطل کا معاملہ درپیش رہا ہے، یا کم ازکم اس سال کے اواخر تک اور شاید اس سے کہیں آگے تک یہی صورت حال رہے”۔
ایک اور خبر کے مطابق اگست میں طالبان کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سابق افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے 100 سے زائد اہل کاروں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
رائٹرز نے منگل کے روز جنیوا سے اقوام متحدہ کے ذرائع سے خبر دی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں سخت گیر اسلام نواز گروپ کے ہاتھوں ہوئی ہیں، جو کم عمر لڑکوں کو بھرتی کر رہا ہے اور خواتین کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔
عالمی ادارے کے انسانی حقوق کی معاون ہائی کمشنر، ندا النشیف نے مزید کہا ہے کہ داعش خراسان سے تعلق رکھنے والے کم از کم 50 مشتبہ ارکان کو پھانسیاں دی گئیں یا ان کے سر قلم کیے گئے۔ داعش خراسان طالبان کا نظریاتی مخالف ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اگست سے اب تک کم از کم آٹھ سرگرم افغان کارکنوں اور دو صحافیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل کی اہل کار نے بتایا کہ عالمی ادارے کو اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ 59 افراد کو غیر قانونی طور پر زیر حراست رکھا گیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ”افغان ججوں، استغاثہ اور وکلا، خاص طور پر قانونی پیشوں سے وابستہ خواتین کے تحفظ کا معاملہ پریشانی کا باعث ہے”۔