اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں افغانستان کی صورتِ حال پر ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) وزرائے خارجہ اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے۔
Family photo of the 17th Extraordinary Session of #OIC Council of Foreign Ministers to discuss grave humanitarian situation in #Afghanistan. #OICInPakistan #OIC4Afg pic.twitter.com/cMqZ9XkSux
— OIC (@OIC_OCI) December 19, 2021
کانفرنس کے افتتاحی سیشن اور کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے بند کمرہ اجلاس کے بعد او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ رُکن ممالک نے افغانستان کی فوری امداد کے لیے فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ غذائی قلت سے دوچار ملک کے لیے فوڈ سیکیورٹی پروگرام بھی شروع کیا جائے گا۔
https://twitter.com/SAfridiOfficial/status/1472593172593319944?t=NoweCo49Ra8BIHhLoIBWnA&s=19
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ افغانستان کے لیے او آئی سی کی جانب سے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے گا۔
اُن کے بقول اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ افغانستان کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے فنانشل اور بینکنگ چینلز بحال کرنا ناگزیر ہے۔
وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ رُکن ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ افغانستان پر عائد عالمی پابندیوں کی زد میں انسانی امداد کے منصوبے نہیں آنے چاہئیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کے ساتھ مل کر افغان عوام کی مدد کے لیے کام کرے گی۔
شاہ محمود قریشی کے بقول انسانی بحران افغانستان پر منڈلا رہا ہے، اگر بروقت مدد فراہم نہ کی گئی تو بہت بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔
اُنہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر معاملات مزید خراب ہوئے تو نہ صرف افغانستان کے پڑوسی ممالک بلکہ پوری دنیا متاثر ہو گی۔
‘امریکہ، طالبان اور افغان عوام کو الگ نظر سے دیکھے’
اس سے قبل کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر افغانستان کی فوری مدد نہ کی گئی تو ملک افراتفری کا شکار ہو جائے گا جس سے لامحالہ دہشت گردی کو فروغ ملے گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو طالبان حکومت اور چار کروڑ افغان شہریوں کو الگ نظر سے دیکھنا ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں موسمِ سرما عروج پر ہے اور سب جانتے ہیں کہ وہاں موسم کی شدت کتنی خطرناک ہوتی ہے۔ لہذٰا عالمی برادری بالخصوص امریکہ اور مغربی ممالک کو افغانستان کی مدد کے لیے آگے آنا ہو گا۔ ورنہ انسانوں کی وجہ سے سامنے آنے والا یہ سب سے بڑا انسانی بحران ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان میں انسانی بحران نے شدت اختیار کی تو وہاں حکومت کمزر ہو گی جس سے دہشت گرد گروپس بشمول دولتِ اسلامیہ (داعش) کو پنپنے کا موقع ملے گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بینک بند پڑے ہیں جب کہ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی افغان حکومت کے پاس رقوم نہیں ہیں۔
پاکستانی وزیرِ اعظم نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر افغانستان کی فوری مدد نہ کی گئی تو مہاجرین کی ایک نئی لہر آئے گی جس سے پاکستان اور ایران کے علاوہ یورپی ممالک بھی متاثر ہوں گے۔
The 17th Extraordinary Session of OIC Council of Foreign Ministers is underway in National Assembly of Pakistan.
The key focus of this conference is to devise a strategy to address the humanitarian crisis in Afghanistan.#OICInPakistan #OIC4Afg pic.twitter.com/uBV4W8LMQ9
— Prime Minister's Office (@PakPMO) December 19, 2021
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہیں۔ لہذٰا اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان کی مدد کی جائے۔
اس سے قبل افغانستان کے معاملے پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس اتوار کی صبح شروع ہوا تھا۔
— OIC (@OIC_OCI) December 19, 2021
پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس میں او آئی سی کے رُکن ممالک کے نمائندوں سمیت امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین کے مندوبین بھی شریک ہوئے۔
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان گزشتہ شب اسلام پہنچے تھے۔ اس موقع پر اپنے بیان میں تھامس ویسٹ کا کہنا تھا کہ طالبان سے سفارت کاری میں افغان عوام ہمیشہ ہماری ترجیحات میں ہوں گے۔
Pleased to be in Islamabad for an Extraordinary Session of the OIC Council of Foreign Ministers, focused on the humanitarian situation in Afghanistan. A timely and important initiative.
— U.S. Special Representative Thomas West (@US4AfghanPeace) December 18, 2021
افغانستان میں طالبان حکومت کے عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی بھی ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ اس اجلاس میں شریک ہوئے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے چھ نکاتی تجاویز پیش کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں فوری طور پر افغانستان میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایک ایسا گروپ بنانا ہو گا جو افغانستان کو درپیش مالی چیلنجز اور بینکاری نظام کی عدم موجودگی کا حل تلاش کرے۔
شاہ محمود قریشی نے زور دیا کہ طالبان سے روابط کے ذریعے ہی ان سے بین الاقوامی برادری کی توقعات پوری کروانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ خوراک نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں دنیا کا بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، لہذٰا دنیا کو اُن کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی نے خدشہ ظاہر کیا کہ خوراک کے بحران کا نتیجہ آبادی کے انخلا اور دہشت گردی کے فروغ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے اپنے خطاب میں افغانستان کے لیے ایک ارب ریال امداد کا اعلان کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے اور ملک مکمل تباہی کی جانب بڑھ سکتا ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیرِ خارجہ مولود چاوش اولو نے کہا کہ افغانستان کے استحکام کے لیے طالبان کے ساتھ رابطے رکھنا ضروری ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ انسانی اور اقتصادی بحران ہجرت کا باعث بنتا ہے جس سے لامحالہ ہمسایہ ممالک اور دنیا متاثر ہو سکتی ہے۔
ترک وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کے معاملے پر ایران، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان کے فعال رابطوں کو سراہتے ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق 20 سے زائد وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئے جب کہ متعدد ممالک کی نمائندگی نائب وزرائے خارجہ، سیکریٹری خارجہ اور اعلیٰ حکام نے کی۔
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ کانفرنس میں شرکت کے لیے جمعرات کو اسلام آباد پہنچے تھے۔ اس کے علاؤہ اسلامی ترقیاتی بینک کے سربراہ، خلیج تعاون کونسل کے جنرل سیکریٹری اور افغانستان کے لیے یورپین یونین، اٹلی، جرمنی کے نمائندہ خصوصی بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔
اس اجلاس کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے قومی اسمبلی ہال کا انتخاب کیا گیا تھا۔
Secretary General: The OIC reaffirms the importance of concerted efforts to combat terrorism and violence in #Afghanistan and to ensure that Afghan territories are not used as a platform or haven for terrorist organizations. #OIC4Afg pic.twitter.com/wlEUT0UqvF
— OIC (@OIC_OCI) December 19, 2021