نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں ہندو انتہا پسندوں کی ایک مذہبی تقریب ’دھرم سنسد‘ میں ہونے والی تقریروں کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان ویڈیوز میں تقریب کے شرکاء اقلیتوں کے خلاف انتہائی نفرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
انڈیا کے این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی کال کی مذمت کی جا رہی ہے لیکن نفرت انگیز تقاریر کرنے والے افراد برسرِ اقتدار جماعت بی جے پی کے ساتھ اپنے روابط ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی تقاریر پر قائم ہیں۔
ویب سائٹ کے مطابق اس تقریب کے چار دن کے بعد نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی ہے اور نہ ہی کوئی پولیس کارروائی ہوئی ہے۔
https://twitter.com/zoo_bear/status/1473581283242491904?t=4PbQ2YJpedseBOUfZaOezA&s=19
بی بی سی نیوز کی انڈیا کی نامہ نگار یوگیتا لمایے نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ’انڈیا میں ایک مسلم کمیڈین ایک لطیفے پر جیل بھیج دیا گیا۔ ایک ہندو رہنما جو لوگوں کو یہ نصیحت کرتی نظر آتی ہیں کہ مسلمانوں کو مار دیں اور پھر چینل این ڈی ٹی وی پر یہ کہتی ہیں کہ آئین غلط ہے، انھیں نہیں پکڑا جاتا۔ پولیس کہتی ہے کہ کسی نے شکایت درج نہیں کرائی ہے۔‘
In #India, a Muslim comedian is jailed for a joke he didn’t crack. A Hindu leader, seen exhorting people to kill Muslims, goes on to tell NDTV ‘the constitution is wrong’, she’s not arrested. Police say no-one filed a complaint. https://t.co/y7V1JnH83i
— Yogita Limaye (@yogital) December 23, 2021
آل انڈیا ترنامول کانگریس کے ترجمان ساکتے گوکھلے کے مطابق انھوں نے ہری دوار کے علاقے جوالا پور میں 17 دسمبر سے لے کر 20 دسمبر تک ہونے والی اس تقریب میں نفرت آمیز تقاریر کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ اگر 24 گھنٹوں میں اس تقریب کے منتظمین اور مقررین کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کی گئی تو وہ جوڈیشیئل مجسٹریٹ کو اپنی شکایت پیش کریں گے۔
انھوں نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ ان لوگوں کو آرام سے جانے نہیں دیا جانا چاہیے۔ انھوں نے اترا کھنڈ انتخابات میں حصہ لینے والی دوسری جماعتوں کو بھی کہا کہ ان کے خلاف آواز اٹھائیں۔
گوکھلے نے جو شکایت درج کرائی اس میں کہا گیا ہے کہ اس تقریب میں ہندو رکشا سینا کے پرابودھا آنند گیری، بی جے پی کی خواتین کے دھڑے کی رہنما اُدتا تیاگی اور بی جے پی رہنما آشوینی اپادھے نے بھی شرکت کی تھی۔ یاد رہے کہ اپادھے پہلے ہی نفرت انگیز تقریر کے ایک مقدمے میں ضمانت پر ہیں۔
I've filed a complaint with SHO, Jwalapur PS in Haridwar against the #HaridwarHateAssembly conducted from 17th-20th December at Ved Niketan Dham.
Failing the registration of an FIR against the organizers & speakers in 24 hrs, a plaint shall be made to the Judicial Magistrate. https://t.co/hnUdNiurve pic.twitter.com/Xgv6FCu3ZM
— Saket Gokhale (@SaketGokhale) December 23, 2021
این ڈی ٹی وی کے ویب سائٹ پر چلائی جانے والی ایک ویڈیو میں پرابودھا آنند گیری کو یہ کہتے ہوئے صاف دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ ’میانمار کی طرح، ہماری پولیس، ہمارے سیاستدانوں، ہماری فوج اور ہر ہندو کو ہتھیار اٹھانے چاہیئں اور صفائی ابھیان (کلین اپ) کرنا چاہیے۔ کوئی اور آپشن نہیں بچا ہے۔‘
این ڈی ٹی وی کے مطابق جب انھوں نے پرابودھا آنند گیری سے رابطہ کر کے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے کہا: ’میں نے جو کہا میں اس پر شرمندہ نہیں ہوں۔ میں پولیس سے نہیں ڈرتا۔ میں اپنے بیان پر قائم ہوں۔‘
اسی تقریب کی ایک اور ویڈیو میں ایک خاتون مذہبی رہنما کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے ’اگر آپ سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو انھیں مار دیں۔۔۔ ہمیں 100 فوجیوں کی ضرورت ہے۔۔۔‘
انڈیا کے متعدد اخباروں نے بھی ان ویڈیوز پر غم و غصے کی خبریں چلائی ہیں۔
انڈیا کے سابق آرمی چیف وید ملک نے ان تقاریر کے خلاف بات کرنے والے ایک شخص کی ٹویٹ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسی تقاریر سے عوامی ہم آہنگی اور قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔ سول انتظامیہ کو ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔‘
Agreed. Such speeches disturb public harmony and affect national security. Action required by Civil Admin.
— Ved Malik (@Vedmalik1) December 23, 2021
سوشل میڈیا پر جن بڑے ناموں نے ان کی شدید مذمت کی ہے ان میں رانا ایوب، نیدھی رازدان، نیہا کھنا اور ٹینس کی سابق عالمی چیمپیئن مارٹینا نیورٹیلووا شامل ہیں۔
India’s Supreme Court needs to step in and act. This hatred is not fringe, it is mainstream, being emboldened by the silence of the establishment, the judiciary and large sections of the pliant press. We all need to speak up NOW https://t.co/GeUFqGlzqs
— Nidhi Razdan (@Nidhi) December 23, 2021
نیدھی رازدان نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا کہ ’انڈیا کی سپریم کورٹ کو آگے بڑھ کر عمل کرنا چاہیئے۔ نفرت کنارے پر رہ کر نہیں بلکہ مین سٹریم (مرکزی دھارے) سے ہے، جس کی حوصلہ افزائی اسٹیبلشمنٹ کی خاموشی، عدلیہ، اور لچکدار پریس کا ایک بڑا حصہ کر رہا ہے۔ ہم سب کو اب بولنے کی ضرورت ہے۔‘
رانا ایوب نے صحافی برادری سے کہا کہ وہ اس پر خاموش نہ بیٹھیں اور اپنی آواز اٹھائیں کیونکہ یہ صرف کچھ لوگ نہیں ہیں۔ انھوں نے صحافی اور ریسرچر محمد زبیر کے مختلف ٹویٹس کا ایک تھریڈ بھی اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر لگایا جس میں ہری دوار میں ہونے والی مذہبی تقریب میں شامل افراد نے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کی تھیں اور ہندو برادری کے جذبات کو ابھارا تھا۔