واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو ایک قانون پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت چین میں ایغور قیدیوں کی جبری مشقت سے بنی اشیا پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
ایغور جبری مشقت پر پابندی کے ایکٹ کو گزشتہ ماہ ایک برس طویل مذاکرات کے بعد کانگریس نے منظور کیا تھا۔
اس قانون کے مطابق چین کے صوبے سنکیانگ میں بنائی جانے والی اشیا کی امریکہ درآمد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ پابندی اس وقت تک رہے گی جب تک کہ یہاں کی کمپنیاں شفاف اور قابلِ یقین ثبوت نہ دے دیں کہ ان کی اشیا کے بننے کے دوران کسی مرحلے پر نسلی طور پر ایغور مسلمانوں سے کیمپوں میں جبری مشقت نہیں کرائی گئی۔
بیجنگ ان حراستی مراکز کو تعلیم و فنی تربیت کے مراکز قرار دیتا ہے جنہیں مبینہ طور پر شدت پسندانہ خیالات سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
چین کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف مزاحمت کی تازہ لہر فروری میں بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس سے پہلے شروع ہوئی۔
Today, I signed the bipartisan Uyghur Forced Labor Prevention Act. The United States will continue to use every tool at our disposal to ensure supply chains are free from the use of forced labor — including from Xinjiang and other parts of China. pic.twitter.com/kd4fk2CvmJ
— President Biden (@POTUS) December 23, 2021
رواں برس کے اوائل میں امریکہ نے چین کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ سلوک کو نسل کشی قرار دیا تھا جب کہ گزشتہ ہفتے ہی امریکہ نے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں ایک غیر جانب دار ٹریبیونل نے قرار دیا کہ ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے اقدامات کی ذمہ داری اعلیٰ سطح کی چین کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔
چین کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بیجنگ امریکہ کی کانگریس کی جانب سے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مخالفت کرتا ہے۔
انہوں نے امریکہ کے سیاسی رہنماؤں پر چین سے متعلق جھوٹ پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ چین کی ترقی کو سیاسی چال سے روک سکیں اور انسانی حقوق کے نام پر معاشی طور پر نقصان پہنچائیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون سازی کی تعریف کی ہے اور اسے چین کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے ساتھ سلوک سے نمٹنے کے لیے ایک اچھی پیش رفت قرار دیا ہے۔
‘ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ’ کے ‘سینئر پروگرام افسر فار ایڈوکیسی اینڈ کمیونیکیشن’ پیٹر ارون نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا بھر کے لیے پیغام ہے کہ اس معاملے پر امریکہ اقدامات اٹھائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ دوسرے ممالک کی حکومتوں کے لیے مثال ہے کہ وہ بھی ایسے ہی جبری مشقت کے خلاف قوانین کو منظور کریں۔
انہوں نے امریکہ کی طرف سے سفارتی بائیکاٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے سب سے پہلے یہ قدم اٹھایا جس پر دوسری حکومتوں نے بھی عمل کیا۔
امریکی کمپنیوں نائیکی اور کوکا کولا نے اس قانون کے ابتدائی مسودوں کی مخالفت میں لابنگ کی تھی۔
بائیڈن انتظامیہ پر سینیٹر مارکو روبیو نے الزام لگایا تھا کہ وائٹ ہاؤس اس بل کو اس لیے روک رہا ہے کیوں کہ اس پر بائیڈن کے موسمیاتی تبدیلی کے ایلچی جان کیری کو خدشات ہیں۔
پیٹر ارون نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ دنیا بھر کی 40 فی صد پولی سلیکون کی رسد سنکیانگ سے ہوتی ہے۔ اس پابندی کی وجہ سے سولر سیل اور پینلوں کی صنعت کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
اس قانون کے منظور ہونے پر مارکو روبیو نے ایک بیان میں اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اب امریکہ کا معاشی معاملات میں چین پر انحصار کرنے کا وقت ختم ہونا چاہیے۔