برلن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/روئٹرز) گزشتہ کئی دنوں کے دوران بحیرہ روم میں تارکین وطن کی کشتیوں کے ڈوبنے سے درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جرمنی کے علاوہ یونان اور تیونس کے ساحلی محافظوں نے بھی کامیاب امدادی مشن کی اطلاعات دی ہیں۔
جرمنی کی ایک غیر سرکاری تنظیم سی واچ نے کرسمس کی تعطیلات کے موقع پر بحیرہ روم میں سینکڑوں افراد کو ڈوبنے سے بچایا ہے۔ 26 دسمبر اتوار کے روز بھی بحیرہ روم میں پھنسی ایک کشتی سے تقریباً 96 افراد کو بچا لیا گیا۔ سی واچ کے مطابق گزشتہ تین دنوں کے دوران ان کا یہ پانچواں ریسکیو مشن تھا۔
???? Fifth rescue in 3 days: The crew of the #SeaWatch3 has just rescued another 96 people from distress at sea, including a heavily pregnant woman. The now total of 446 people are cared for and medically attended by us on board, our youngest guest is just two weeks old. pic.twitter.com/OoZeggp5y5
— Sea-Watch International (@seawatch_intl) December 26, 2021
اواخر ہفتہ اس جرمن تنظیم نے مجموعی طور پر تقریباً 446 تارکین وطن کو بچایا اور پھر انہیں اپنے جہاز “سی واچ تھری” پر سوار کیا۔ اتوار کے روز جن افراد کو بچایا گيا ان میں ایک حاملہ خاتون بھی شامل تھیں جبکہ پانچ امدادی کارروائیوں میں جن تمام افراد کو ریسکیو کیا گيا ان میں سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف دو ہی ہفتے کی تھی۔
بحیرہ روم میں اب تک کتنے افراد ہلاک ہو چکے ہیں؟
حالیہ دنوں میں بحیرہ روم میں گنجائش سے زیادہ بھری کشتیوں کے الٹنے سے درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، تاہم اسی دوران جرمن امدادی تنظیم سی واچ مصیبت میں گھری تارکین وطن کی کئی کشتیوں تک پہنچنے میں بھی کامیاب رہی۔
کرسمس کے موقع پر ہی، یونان کے کوسٹ گارڈز نے بحیرہ ایجیئن میں پھنسے دو بحری جہازوں سے 27 لاشیں نکالیں۔ اس کے علاوہ اتوار کے روز ہی لیبیا کے ساحل سے بھی تقریبا 28 لاشیں ملی ہیں۔
بدھ کو فولگینڈروس جزیرے کے قریب ایک کشتی ڈوب گئی تھی، جس میں کم از کم تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی جبکہ درجنوں اب بھی لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن مطابق، بحیرہ ایجیئن میں یہ اس برس کا اب تک کا ہلاکت خیز ترین واقعہ ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اب تک 1600 افراد بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
ادھر سی واچ نے تارکین وطن سے متعلق یورپی یونین کی پالیسیوں پر یہ کہتے ہوئے نکتہ چینی کی ہے کہ کچھ لوگ تو خطرناک آبی گزرگاہ عبور کر کے یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، “تاہم ہزاروں دیگر افراد کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔”
دیگر امدادی مشن کیا تھے؟
تیونس اور یونان کے ساحلی محافظوں نے بھی کرسمس کے موقع پر بعض کامیاب ریسکیو مشن انجام دیے ہیں۔ جمعے کے روز، جنوبی یونان کے ساحل پر 92 افراد کو بچایا گيا تھا۔
اطلاعات کے مطابق تین مشتبہ اسمگلرز نے پیدل فرار ہونے کی کوشش کی تھی تاہم بعد میں انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ تیونس کے ساحلی محافظوں نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ انہوں نے لیبیا کے ساحل سے یورپ کی طرف روانہ ہونے والے 48 تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچا لیا۔
یورپی یونین کے علاقوں تک پہنچنے کی کوشش میں ایسے اکثر پناہ گزیں شمالی افریقہ سے روانہ ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر کی منزل اٹلی ہوتی ہے۔
سن 2015 کے بعد سے، اب تک تقریباً 10 لاکھ افراد، ترکی سے یونان پہنچے ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے ہے۔