اسلام آباد (ڈیلی اردو) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کوئٹہ میں مبینہ طور پر پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ارمان لونی قتل کیس میں پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کر دی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس اسلام آباد میں سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی صدارت میں ہوا ۔ کمیٹی اجلاس میں ارمان لونی کی بہن واڑنگہ لونی بھی شریک ہوئیں۔
ارمان لونی پر تشد د کیا گیا تشدد کے بعد ہسپتال لے جانے لگے تو پولیس کی گاڑی کی رکاوٹ کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔ سابق سینٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ لونی کے دماغ میں کچھ نشان پوسٹ مارٹم رپورٹ میں آنے کی وجہ سے اعضاء پنجاب فرنزک کو بھیجے گئے سمجھ نہیں آتی کے ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی گئی۔
معاملے کی جوڈیشل انکوئری ہونی چاہئے اور دفعہ 144 کیوں لگایا گیا اس کی بھی انکوئری ہونی جانی چاہئے۔
رکن کمیٹی محمد علی سیف نے کہا کہ کوئٹہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سر کے اندر زخم آنے کی وجہ سے اندورنی خون بہہ اور دماغ میں خون جم گیا جس سے دل سے خون کی سپلائی بھی بند ہو گئی۔
وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیری مزاری نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ معاملات کو احسن طریقہ سے حل کیا جائے معاملات میں گڑبڑ نظر آتی ہے۔ ایف آئی آر کیو ں درج نہیں کی گئی اور پی ٹی ایم کے لوگ جب جنازے پر جا رہے تھے اُن پر فائرنگ کی گئی جو قابل مذمت ہے۔
رکن کمیٹی عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں کے خلاف کیسز واپس لئے جائیں، پی ٹی ایم کارکنان کی گاڑی پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہیں۔ ڈی آئی جی پولیس نے کمیٹی کو بتایا ہم پی ٹی ایم کے خلاف نہیں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔
پی ٹی ایم کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف نعر ے بازی کی گئی۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا بہت سی چیزوں کو ملکی مفاد میں نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ معاملے کا تفصیل سے جائزہ لینے کے لئے سابق سینٹر فرحت اللہ بابر، پولیس حکام اور ارمان لونی کے لواحقین کو بھی کمیٹی اجلاس میں آگاہی حاصل کرنے کے لئے بلایا گیا۔
کمیٹی نے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور ایف آئی آر درج کرنے اور متعلقہ پولیس افسران کے خلاف انکوائری کی سفارش کردی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا اگر انکوئری رپورٹ سے مطمن نہ ہوئے تو ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دے کر رپورٹ حاصل کی جائے۔