اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) مذہبی تنظیموں اور رہنماؤں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے جس میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے یہ کہا تھا کہ تمام غیر قانونی تجاوزات، بشمول مساجد، کو گرایا جائے۔
اس فیصلے پر مذہبی تنظیمیں بہت مشتعل نظر آتی ہیں۔ مذہبی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فیصلے پر عملدآمد ہوا تو ملک میں بہت خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ جمیعت علمائے اسلام کے رہنما ڈاکٹر راشد محمود سومرو کا ایک ویڈیو خطاب سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، جس میں وہ اس فیصلے کی شدت کے ساتھ مخالفت کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کی لال مسجد سے منسلک شہدا فاؤنڈیشن نے بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے اور اسے غیر شرعی قرار دیا ہے۔
خون خرابے کا خدشہ
جمعیت علما اسلام کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف مذہبی طبقات کا نہیں بلکہ بائیس کروڑ عوام کا ہے اور اگر اس فیصلے پر علمدرآمد ہوا تو ملک میں خون خرابہ ہوگا۔ پارٹی کی شوریٰ کے رکن محمد جلا ل الدین ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،” ہم اس فیصلے کی بھرپور مزاحمت کرینگے۔ ملک میں پارکس فحاشی کے اڈے بن چکے ہیں۔ انہیں تعمیر کیا جارہا ہے اور مسجدوں کو گرانے کی بات کی جارہی ہے۔ اگر گرانا ہے تو بنی گالہ کو گرائیں۔ اسلام آباد کے بڑے بڑے غیر قانونی پلازوں کو گرائیں، جن کو ریگو رائزڈ کیا گیا ہے۔ اگر مسجدوں کو گرانے کی کوشش کی گئی تو پورے ملک میں مزاحمت کا طوفان اٹھے گا، جسے کوئی روک نہیں پائے گا۔”
غیر قانونی مذہبی تعمیرات کو گرانا نا ممکن ہے
سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ معاشرے میں مذہبی جماعتوں کی بنیادیں مضبوط ہیں۔ مساجد، مدارس اور مزارات کے حوالے سے فیصلہ تو دے دیا گیا ہے لیکن اس طرح کی غیر قانونی تعمیرات کو گرانا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان سے وابستہ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے حکومت ہو یا کوئی اور حکومت، وہ کسی بھی صورت میں غیر قانونی مساجد، مدارس یا مزارات کو گرانے کی بالکل کوشش نہیں کرے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” اگر حکومت کوشش کرے گی، تو سارے مولوی ایک طرف ہو جائیں گے اور ملک میں بہت بڑا انتشار ہوگا۔ لہذا پیپلز پارٹی سمیت کوئی بھی حکومت نہیں چاہے گی کہ وہ اس طرح کی غیر قانونی مساجد، مدارس اور مزارات کو گرائے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے تو پہلے ہی مولویوں کے خوف سے شادی کے لیے عمر کے تعین کا بل واپس لے لیا تھا۔ تو وہ یہ کیسے کرے گی۔”
ان کا مزید کہنا تھا بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے بعد اعلیٰ عدلیہ پر ایک دباؤ آگیا ہے اور اسی دباؤ کے نتیجے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ بالکل غیر جانبدار ہے۔ ”لیکن سب کو معلوم ہے کہ مذہبی تنظیمیں طاقتور ہیں۔ کراچی میں جہانگیر پارک میں مسجد بن گئی اور بجائے اس کو ہٹانےکے انتظامیہ نے مسجد والوں کو اور جگہ دے دی۔”
مسئلہ افہام و تفہیم سے حل ہو سکتا ہے
تاہم ملک کے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ کو افہام و تفہیم سے حل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ”میں کوئی مذہبی اسکالر نہیں ہوں لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، آپ قبضہ کی زمین پر مسجد نہیں بنا سکتے لیکن بہت ساری مساجد ایسے ہی تعمیر کی گئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی میں لائنز ایریا کے علاقے میں حکومت کچھ ترقیاتی کام کرنا چاہتی تھی۔ لیکن وہاں مسجد و امام بارگاہ بھی اس طرح کے کام کی وجہ سے منہدم ہونے تھے۔ ”وہاں ہم نے لوگوں سے بات چیت کی اور مسجد و امام بارگاہ کے لیے متبادل جگہ کی پیشکش کی اور مسئلہ حل ہو گیا۔ تو یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔”
اسلامی نظریاتی کونسل
اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس مسئلے پر تحقیق شروع کردی ہے۔ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”اس مسئلے پر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ شور ہو رہا ہے۔ لوگ سوالات بھی بھیج رہے ہیں اس لیے میں نے کونسل کے شعبہ تحقیق کو کہا ہے کہ وہ اس مسئلے پر تحقیق کریں۔”
ان کا مذید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں،”اس فیصلے پر عملدرآمد کرانا بہت مشکل ہو گا۔ اس کی سخت مزاحمت ہوگی اور مذہبی تنظیمیں اس کی بھر پور مخالفت کرینگی۔”
ڈاکٹر قبلہ کا کہنا تھا کہ جس مسجد کا کراچی میں حوالہ دیا جارہا ہے اس مسجد میں صدر مملکت بھی نماز پڑھتے ہیں۔”تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسجد کو تعمیرات کی اجازت کس نے دی؟ بجلی اور دوسری سہولیات کس نے فراہم کی؟ تو اس طرح کے سارے سوالات پر بات چیت ہونی چاہیے اور تحقیق ہونی چاہیے۔”
قبضے کی زمین پر مذہبی تعمیرات
پاکستان میں سرکاری سطح پر اس طرح کے اعدادوشمار نہیں کہ ملک میں مجموعی طور پر کتنی مساجد، مزارات یا مدارس غیر قانونی طور پر یا سرکاری زمین پر قائم ہوئے ہیں۔ لیکن کئی ناقدین کے خیال میں ایسی تعمیرات کی تعداد ہزاروں میں ہیں۔ 5 اگست 2004 کو انگریزی روزنامہ ڈان نے ایک خبر شائع کی، جس میں اس وقت کے کراچی پولیس کے چیف طارق جمیل نے یہ کہا کہ شہر میں تقریبا تین ہزار کے قریب مساجد اور امام بارگاہیں، جس میں نصف سے زیادہ قبضہ کی زمین پر قائم ہوئی ہیں۔ انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی 20 مارچ 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف اسلام آباد کے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی میونسپل حدود میں 233 مساجد غیر قانونی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں کل 492 مساجد ہیں۔ اسی طرح خیال کیا جاتا ہے کہ لاہور میں بھی بڑے پیمانے پر مساجد، مدارس اور مذہبی تعمیرات غیر قانونی طور پر بنائی گئی ہیں۔
اس طرح کی تعمیرات کے خلاف عدالتیں حکم بھی دیتی رہی ہیں لیکن ان کو نظر انداز کیا گیا ہے مثال کے طور پر سندھ ہائی کورٹ کی سکھر برانچ نے گزشتہ برس نومبر میں حکام کو یہ تاکید کی تھی کہ وہ کوئی بھی تجاوزات قائم نہ ہونے دیں چاہے وہ مسجد ہی کیوں نہ ہو۔