انٹیلیجنس اہلکاروں نے گھر میں داخل ہو کر ہراساں کیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے الزام عائد کیا ہے کہ انھیں کراچی میں اپنے گھر میں مبینہ طور پر فوج اور وزارت داخلہ کے محکمہ انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے ہراساں کیا ہے۔

31 دسمبر کو پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ، وزارتِ دفاع، انسپکٹر جنرل پولیس سندھ اور محکمہ داخلہ سندھ کو تحریر کردہ شکایت میں سرینا عیسیٰ نے کہا کہ یہ واقعہ کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے فیز فائیو میں اس وقت پیش آیا جب وہ اپنی مرحوم والدہ کے گھر کی مرمت کروانے میں مصروف تھیں۔

بی بی سی نے ان الزامات پر پاکستان آرمی کا مؤقف جانے کی کوشش کی تو ایک سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب تک وزارت دفاع یا وزارت داخلہ کو سرینا عیسیٰ کی جانب سے بھیجی جانے والی درخواست موصول نہیں ہوئی لہٰذا باضابطہ طور پر اس وقت مؤقف دینا قبل از وقت ہو گا جبکہ وزارتِ داخلہ کے ایک افسر نے بھی بی بی سی کو یہی بتایا کہ اب تک ’اس قسم کی کوئی تحریری شکایت انھیں موصول نہیں ہوئی۔‘

’دو آدمی یہ کہہ کر گھسے کہ ان کا تعلق ملٹری انٹیلیجنس سے ہے‘

سرینا عیسیٰ کی تحریری شکایت کے مطابق ان کے والدین کی وفات کے بعد یہ گھر ان کے دونوں بھائیوں اور اُن کے نام پر منتقل ہوا جس کے رنگ و روغن اور مرمت کے لیے وہ کراچی آئی ہوئی تھیں۔

سرینا عیسیٰ نے تحریری شکایت میں بیان کیا ہے کہ 29 دسمبر کو دوپہر 12:15 بجے ان کے گھر میں دو آدمی یہ کہہ کر داخل ہوئے کہ ان کا تعلق ملٹری انٹیلیجنس سے ہے۔

سرینا عیسیٰ کے مطابق اُن کی جانب سے استفسار پر دونوں افراد کسی قسم کا ایسا تحریری اجازت نامہ پیش نہیں کر سکے جو ان کو گھر میں داخل ہونے کا مجاز بناتا ہو، نہ ہی ان میں سے کسی نے اپنے شناختی کارڈ یا دفتری کارڈ کی کاپی دکھائی۔ سرینا عیسیٰ کے مطابق ان دونوں اہلکاروں میں سے ایک نے اپنا نام محمد امجد بتایا لیکن دوسرے نے وہ بھی بتانے سے اجتناب کیا۔

سرینا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی بیٹی ان کے ساتھ تھیں۔

سرینا عیسیٰ کے بیان کی کاپی کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ تحریری شکایت ملک کے وفاقی و صوبائی اداروں کو بھیجی جا چکی ہے لیکن اب تک کسی کی جانب سے کوئی جواب یا وضاحت موصول نہیں ہوسکی ہے۔‘

سرینا عیسیٰ نے بیان میں لکھا ہے کہ ان کے گھر میں داخل ہونے والے اہلکاروں نے ان سے ان کے خاندان کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ایک چار صفحوں کا فارم تھمایا اور اسے بھرنے کا کہا۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ اس فارم پر بھی ملٹری انٹیلیجنس یا کسی اور ادارے کا نام نہیں لکھا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ یہ دونوں افراد ان کو فارم تھمانے کے بعد یہ کہہ کر چلے گئے کہ وہ دو دن بعد پُر شدہ فارم واپس لینے آئیں گے۔

’خاندان کو ڈرانے اور دباؤ ڈالنے کے واقعات کا تسلسل جاری‘

انھوں نے لکھا کہ وہ اور ان کی بیٹی ابھی حیرت زدہ اور پریشان ہی تھے کہ یہ افراد کس طرح باآسانی ان کے گھر میں داخل ہو گئے کہ اسی وقت دو اور افراد آئے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ وزارتِ داخلہ کے انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے آئے ہیں اور ان دو اہلکاروں نے بھی ان سے ان کے خاندان کے بارے میں سوالات پوچھے۔

سرینا نے بیان میں کہا ہے کہ جب ایک بار پھر انھوں نے ان اہلکاروں سے شناختی کارڈ یا ادارے کی طرف سے جاری کردہ اجازت نامہ مانگا تو ان اہلکاروں نے کارڈ دینے یا مزید کچھ بتانے سے انکار کر دیا۔ ان میں سے ایک نے اپنا نام انسپکٹر محمد ذیشان بتایا۔

اس بار سرینا کو کوئی فارم بھرنے کے لیے نہیں دیا گیا بلکہ ایک اہلکار نے ان سے ان کا فون نمبر مانگا اور کہا کہ وہ انھیں واٹس ایپ پر سوالات بھیج دیں گے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ان افراد کی موجودگی میں ہی ڈی ایچ اے کے ایک سینیئر افسر سے فون پر رابطہ کیا گیا تو اس افسر نے انھیں بتایا کہ ڈی ایچ اے، ملٹری اسٹیٹ آفس اور کنٹونمنٹ بورڈ کو اس قسم (یعنی سرینا سے پوچھے جانے والے سوالات) کی معلومات درکار نہیں اور ان اہلکاروں کو ڈی ایچ اے نے نہیں بھیجا ہے۔

سرینا عیسیٰ کے مطابق ان افراد کا کہنا تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر آئیں گے اور بہتر ہو گا کہ وہ معلومات فراہم کر دیں ورنہ نتائج کا سامنا کریں۔

اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے ڈی ایچ اے انتظامیہ کے ایک سینئیر اہلکار نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ڈی ایچ اے کی جانب سے گھروں کی ملکیت اور مالکان کے بارے میں کسی قسم کی تصدیق یا ویریفیکیشن نہیں کروائی جاتی۔ البتہ بدعنوانی کے مقدمات میں جو لوگ مطلوب ہوتے ہیں صرف ان کی جانچ کی جاتی ہے۔‘

اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کی اکثریت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا تھا جبکہ ان میں سے سات ججوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور ان کے بچوں کا معاملے ایف بی آر میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

سرینا عیسیٰ نے تحریر کردہ خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس کے دوران پیش آنے والے ماضی کے چند واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے خاندان کو ڈرانے اور ان پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے۔

انھوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر ان سے کسی قسم کی معلومات درکار تھیں تو ان سے تحریری طور پر کیوں نہیں مانگی گئیں اور ان کو ڈرانے دھمکانے کے لیے چند اشخاص کیوں بھیجے گئے۔

سرینا عیسیٰ نے حکومت سندھ اور پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ ان افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے اور قانونی کارروائی کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں