کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار میں آنے کے بعد سوشل میڈیا پر مسلسل ایسی ویڈیو سامنے آ رہی ہیں جس میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر سکیورٹی کے لیے نصب خار دار تاروں کو اکھاڑا جا رہا ہے۔
ان ویڈیوز کے بعد افغان طالبان کی جانب سے ایسے بیان بھی سامنے آئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ اس سرحد کو تسلیم نہیں کرتے۔ پاکستان حکام کی جانب سے اس بارے میں اتوار تک تو مکمل خاموشی رہی لیکن سوموار کو وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک بیان سامنے آیا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ ’پاکستان پاک افغان سرحد پر طالبان کی جانب سے خار دار تاریں اکھاڑنے کے معاملے پر خاموش نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’باڑ ہم نے لگائی ہے اور انشا اللہ ہماری کاوش جاری رہے گی۔ افغانستان ہمارا دوست ہمسایہ ملک ہے، ہماری ان کے ساتھ انگیجمنٹ ہے اور ہم انشاللہ سفارتی ذرائع سے جو کچھ الجھنیں آئی ہیں انھیں دور کر لیں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ اس معاملے کو اچھالنا چاہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اسے اچھالنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے ’لیکن ہم اپنے مفادات کا تحفط کریں گے۔‘
اب تک اس طرح کی مختلف ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں دو ویڈیوز بظاہر افغانستان کے صوبہ ننگر ہار اور پاکستان کے ضلع مہمند کے ساتھ ملنے والی پاک افغان سرحد کی بتائی گئی ہیں۔
ایک ویڈیو کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان کے صوبہ نیم روز میں پاک افغان سرحد کے قریب بنائی گئی ہے۔ حال ہی میں ایک ایسی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں ٹرک کے ساتھ خار دار تاروں کو اکھاڑا جا رہا ہے۔ یہ ویڈیو رات کے وقت بنائی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر اسی طرح بعض علاقوں کی تصاویر بھی شیئر کی گئی ہیں جن میں خار دار تار کے رول نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کے ضلع مہمند سے ذرائع نے بتایا کہ افغانستان کی جانب سے دو مقامات سے باڑ کو اکھاڑا گیا ہے۔
ایک افغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں گوشتی کے علاقے میں جبکہ دوسرا مقام پلوسی کا علاقہ ہے جہاں ایک سرکاری سکول بھی نظر آ رہا ہے۔
افغانستان کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں افغان طالبان بات چیت کر رہے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ یہ اپر پلوسی کا علاقہ ہے اور سابق صدر اشرف غنی کے دور میں معاہدہ ہوا تھا اور یہاں گورنمنٹ پرائمری سکول پلوسی مہمند بنایا گیا ہے اور یہ افغانستان کا علاقہ ہے۔
اسی طرح ٹوئٹر پر افغانستان کے مقامی صحافی نے طالبان حکومت کی وزارت دفاع کے ایک ترجمان کی ویڈیو بھی شیئر کی ہے جس میں وہ فارسی زبان میں پاک افغان سرحد پر نصب باڑ کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ترجمان نے کہا ہے کہ خار دار تاروں کی تنصیب سے دو قوموں کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں اور یہ باڑ عالمی اور علاقائی اصولوں کے خلاف ہے۔
اس کے علاوہ افغانستان میں وزارت اطلاعات کے محکمے میں موجود عہدیدار بلال کریمی سے رابطہ قائم کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں تاحال کوئی باقاعدہ بیان تو جاری نہیں ہوا، تاہم سرحد پر کچھ چھوٹے واقعات پیش آئے ہیں جنھیں حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امارات اسلامی افغانستان کی کوشش ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ان معاملات کو حل کرنے کی کوشش جاری ہے۔
بی بی سی نے شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس سے پہلے اس حوالے سے پاکستان کے متعلقہ حکام کو ای میل اور ٹیلیفون کے ذریعے پیغامات اور سوالات بھیجے لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔
سرحد پر خاردار تاروں کو اکھاڑنے کا سلسلہ کوئی دو تین ہفتوں سے جاری ہے اور اس بارے میں ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے جو ویڈیو جاری کی گئی تھیں ان میں باقاعدہ افغانستان کے انٹیلیجنس کے عہدیدار بھی نظر آ رہے ہیں۔
ٹوئٹر پر پہلی ویڈیو اور تصاویر میں کچھ افغان سیکیورٹی اہلکار خار دار تاریں اٹھاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور بڑی تعداد میں خار دار تاریں زمین پر پڑی ہوئی ہیں۔ یہ ویڈیو بنانے والے آپس میں کہہ رہے ہیں کہ صحیح تاریں لے آؤ تو دوسرا شخص کہتا ہے کہ ساری تاریں لے آئے ہیں۔
افغان صحافی بلال سروری نے اپنی ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ ان خصوصی فورسز کی قیادت طالبان کے انٹیلیجنس چیف ڈاکٹر بشیر کر رہے تھے۔ اس ٹویٹ میں کہا گیا کہ افغان فوجیوں کے مطابق یہ خار دار تاریں افغانستان کی حدود کے اندر لگائی گئی ہیں۔
اس بارے میں سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان نے افغانستان کی جانب سے شدت پسندوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے غیر قانونی طریقوں سے داخلے پر پابندی کی خاطر سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ چار سال پہلے کیا تھا۔
پاکستان میں آرمی پبلک سکول پر حملے اور دیگر تشدد کے واقعات کے بعد حکام کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ بیشتر حملہ آور افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں کارروائیاں کرکے واپس فرار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بھتے کے حوالے سے بھی اکثر پولیس حکام یہی کہتے رہے ہیں کہ بیشتر بھتہ خور افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں سے یہ کارروائیاں کرتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد مشکل اور طویل ہے اور حکام کے مطابق اس کی مسلسل نگرانی کرنا ایک مشکل کام ہے اس لیے اس سرحد پر باڑ لگانے سے غیر قانونی طور پر لوگ سرحد عبور نہیں کر سکیں گے۔
پاک افغان سرحد کوئی 2640 کلومیٹر طویل ہے اور اس میں دور تک پھیلے پہاڑی سلسلے شامل ہیں۔ اس باڑ کی تنصیب کے لیے سرکاری ذرائع کے مطابق اربوں روپے مختص کیے گئے تھے اور اس منصوبے کے تحت سرحد پر نگرانی کے لیے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے قلعے یا چوکیاں تعمیر کیے جا رہے ہیں اور جدید ریڈار سسٹم کی تنصیب بھی اس منصوبے کا حصہ ہے اور اس کا مقصد ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔
افغان حکام اس منصوبے کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ جب تک دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا تنازعہ حل نہیں کر لیا جاتا تب تک اس سرحد پر باڑ لگانا صحیح نہیں ہے۔
ڈیورینڈ لائن یا پاکستان افغان سرحد پر یہ تنازعہ پہلی مرتبہ پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ طویل عرصے سے جاری ہے اور دونوں ممالک کا اپنا اپنا موقف ہے۔
بظاہر یہ سرحد تو 1893 میں ایک معاہدے کے بعد قائم کی گئی تھی جب برصغیر میں برطانیہ کی حکمرانی تھی اور اس سرحد کا معاہدہ افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمان اور برطانوی عہدیدار موٹیمر ڈیورنڈ کے درمیان طے ہوا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ یہ معاہدہ ایک سو سال کے لیے ہو گا۔