کابل + اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان میں طالبان حکومت نے پاک ۔ افغان سرحد پر باڑ لگانے کے حوالے سے کہا ہے کہ اس مسئلے کو سفارتی ذریعے سے حل کرلیا جائے گا۔
پیر کے روز پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ پاک ۔ افغان سرحد پر باڑ لگانے میں کچھ مسائل کا سامنا ہے اور اس پر طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت جاری ہے, انہوں نے اس قسم کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر ’کچھ شرپسندوں‘ کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبد القہار بلخی کا کہنا تھا کہ ’حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن پر کچھ واقعات پیش آئے ہیں جن کی وجہ سے اس بات کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے کہ دونوں جانب سے حکام اس معاملے کو حل کریں‘۔
Recently a few of incidents have taken place along Durand line between Afghanistan and Pakistan that have given rise to the need for authorities of the two sides to address the problem. pic.twitter.com/L0t5Jt1tgf
— Abdul Qahar Balkhi (@QaharBalkhi) January 4, 2022
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان حکومت معاملات کو ’اچھے ہمسائیوں‘ کی طرح ’افہام و تفہیم اور بات چیت‘ کے ساتھ حل کرنے پر یقین رکھتی ہے اور اس معاملے کو سفارتی ذریعے سے حل کرے گی۔
ڈان ڈاٹ کام کو یہ بھی معلوم ہوا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے نے طالبان حکومت سے اس معاملے پر سرکاری مؤقف بھی مانگا ہے۔
گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں طالبان جنگجوؤں کو پاک ۔ افغان سرحد پر لگی باڑ اکھاڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور یہ جواز پیش کیا گیا ہے کہ باڑ افغان سرحد کے اندر لگائی گئی تھی۔
ایک تازہ ویڈیو میں افغان وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی کو یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا کہ پاکستان کے پاس سرحد پر باڑ لگانے اور تقسیم پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کے اقدامات ’نامناسب اور قانون کے خلاف ہیں‘۔
گزشتہ ماہ وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ طالبان خاردار تاروں کو قبضے میں لے رہے ہیں اور ایک سینیئر اہلکار کچھ فاصلے پر موجود سیکیورٹی پوسٹ پر موجود پاکستانی فوجیوں سے کہہ رہا ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے کی کوشش نہ کی جائے۔
باڑ لگانا قوم کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے، طالبان ترجمان
اس سے قبل طالبان کے ترجمان اور طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان کے برعکس بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ابھی حل طلب ہے، اس وجہ سے پاکستان کو اس پر باڑ لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کابل کے ایک مقامی یوٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’ڈیورنڈ لائن کا معاملہ ابھی حل ہونا ہے اور باڑ کی تعمیر خود سرحد کے دونوں طرف پھیلی ہوئی قوم کے درمیان دراڑیں پیدا کرتی ہے، یہ قوم کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے‘۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کے ایک دوسرے سے رابطے ہیں اور باڑ لگانا ان کے درمیان رابطہ منقطع کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ڈیورنڈ لائن نے ایک قوم کو تقسیم کر دیا ہے، ہم ایسا بالکل نہیں چاہتے، ہم مسئلے کا عقلی اور منطقی حل چاہتے ہیں‘۔
پچھلی افغان حکومتوں کی طرح طالبان حکومت بھی اس سرحد کو ایک مصنوعی لکیر سمجھتی ہے جبکہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ سرحد کو ایک طے شدہ مسئلہ سمجھتا ہے۔
ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ افغان بادشاہ عبدالرحمٰن خان اور برطانوی ہندوستان کے سیکریٹری خارجہ سر مورٹیمر ڈیورنڈ کے درمیان 1893 میں ہوا تھا، ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان مکمل سرحد نہیں بلکہ موجودہ سرحد کا ایک حصہ ہے۔
پاکستان، افغانستان کی شدید مخالفت کے باوجود دہشت گردوں کی دراندازی اور اسمگلنگ کو روکنے کے لیے 2017 سے افغانستان کے ساتھ 2 ہزار 600 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگا رہا ہے۔
باڑ لگانے کے علاوہ اس منصوبے میں سرحدی چوکیوں اور قلعوں کی تعمیر اور سرحد کی حفاظت کرنے والے نیم فوجی فرنٹیئر کور کے نئے دستوں کا قیام بھی شامل ہے۔