نیو یارک (ڈیلی اردو/ بی بی سی) دنیا میں پہلی مرتبہ ایک امریکی شہری کو ہارٹ ٹرانسپلانٹ (دل کی پیوند کاری) کے ذریعے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ سؤر کا دل لگا دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سکول کے مطابق مریض کا کامیابی سے ٹرانسپلانٹ ہوا جس کے بعد امریکا سے تعلق رکھنے والے 57 سالہ ڈیوڈ بینیٹ دنیا کے پہلے ایسے انسان بن گئے ہیں جن میں سور کا دل لگایا گیا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ 57 سالہ ڈیوڈ بینیٹ کی حالت سات گھنٹے تک جاری رہنے والے تجرباتی ہارٹ ٹرانسپلانٹ (دل کی پیوند کاری) کے تین دن بعد بہتر ہے۔ یہ ہارٹ ٹرانسپلاٹ امریکی ریاست بالٹیمور میں کیا گیا ہے۔
بینیٹ کی زندگی بچانے کے یہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ آخری امید اور انتہائی ناگزیر تھا۔ تاہم اب بھی یہ واضح نہیں ہے کہ مستقبل میں اُن کی زندہ رہنے کے کتنے امکانات ہیں۔
اپنے ہارٹ ٹرانسپلانٹ سے ایک روز قبل بات کرتے ہوئے بینیٹ کا کہنا تھا کہ ’یہ ایسا ہی ہے کہ یا تو میں مر جاؤں یا یہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کروا لوں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں جانتا ہوں یہ اندھیرے میں تیر چلانے جیسا ہے لیکن میرے پاس آخری حل یہ ہی ہے۔‘
امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹروں نے اس سرجری کے لیے امریکی میڈیکل ریگولیٹر سے یہ کہتے ہوئے خصوصی اجازت لی تھی کہ اگر یہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ نہ کیا گیا تو بینیٹ کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ بینیٹ کی خرابی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو ٹرانسپلانٹ کے لیے غیر موزوں قرار دیا گیا تھا۔
یہ سرجری، ٹرانسپلانٹ سرانجام دینے والی میڈیکل ٹیم کی برسوں کی محنت اور تحقیق کا ثمر ہے اور یہ دنیا بھر میں انسانی زندگیوں کو تبدیل کر سکتا ہے۔
میڈیکل ٹیم میں پاکستانی ڈاکٹر بھی شامل
طب کی دنیا میں یہ کارنامہ انجام دینے والی میڈیکل ٹیم میں ایک پاکستانی ڈاکٹر منصور محی الدین بھی شامل ہیں جن کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے گریجویٹ ہیں۔
پاکستان کے مقامی نیوز چینل ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا اس ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے متعلق کہنا تھا کہ ’ابتدائی تجربات میں انسان میں بندر کا دل لگایا جاتا تھا لیکن وہ مفید ثابت نہ ہوا البتہ سؤر پر تجربہ مفید رہا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں ’ہم نے سارے جانوروں کا معائنہ کیا کہ کون سا جانور انسان کے قریب ہے، شروع میں بندروں کا دل لگایا گیا تو وہ اتنا مفید ثابت نہیں ہوا، چند مہینوں کے سؤر کا دل بڑے انسان کے دل کے برابر کے سائز کا ہوتا ہے، اس کے علاوہ بھی کچھ وجوہات ہیں جس بنا پر ہم نے تمام ریسرچ سور پر کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سؤر کے دل کے جینیاتی کوڈ کو ہم اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور اس میں کوئی بھی جینیاتی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب میں سؤر کو روز مرہ کی غدا میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اس لیے اس کا دل لگانے میں کچھ معیوب نہیں سمجھا گیا۔
واضح رہے کہ مذہب اسلام میں سؤر کو بطور غذا حرام قرار دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر منصور نے مزید بتایا کہ مریض میں سؤر کے دل کے ٹرانسپلانٹ پر ایک کروڑ 75 لاکھ پاکستانی روپے لاگت آئی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر منصور کا کہنا تھا کہ ’ابتدائی تجربے کی وجہ سے لاگت زیادہ ہے کیونکہ اس میں (سور کے دل میں) دس طرح کی جینیاتی تبدیلیاں کی گئی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے معاملے میں مریض اور اس کے دل کو مسلسل مانیٹر کرنا پڑتا ہے، خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ہم نے مریض کو نیا دل دیا ہے لیکن کیا باقی جسم بھی اس چیز کو قبول کرے گا۔’
ڈاکٹر منصور نے کہا کہ اس سرجری کے لیے انھوں نے تحقیق کر کے اس کے لیے ایک خصوصی دوا تیار کی ہے تاکہ مریض کا انسانی جسم سؤر کے دل کو کام کرنے کے لیے قبول کر لے اور کوئی طبی مسئلہ پیدا نہ ہو۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے میڈیکل سکول نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ سرجن بارٹلے گرفتھ کا کہنا تھا کہ یہ سرجری دنیا کو ’انسانی اعضا کی قلت کے بحران کو دور کرنے کے ایک قدم قریب لے آئی ہے۔‘
بحران سے مراد یہ ہے کہ امریکہ میں روزانہ 17 افراد ٹرانسپلانٹ کا انتظار کرتے کرتے جان کی بازی ہار دیتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد اب بھی دل کے ٹرانسپلانٹ کی منتظر فہرست میں شامل ہیں۔
انسانوں میں اعضا کی پیوندکاری کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے جانوروں کے اعضا کو استعمال کرنے جسے ’زینو ٹرانسپلانٹیشن‘ کہا جاتا ہے، کے امکان پر طویل عرصے سے غور کیا جا رہا ہے، اور سؤر کے دل کے والوز کا استعمال پہلے سے ہی عام ہے۔
گذشہ برس اکتوبر میں نیو یارک کے سرجنوں نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے ایک شخص میں کامیابی سے سؤر کے گردے کی پیوند کاری کی تھی۔ ان وقت یہ سرجری اس شعبے میں سب سے زیادہ جدید قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اس وقت مذکورہ شخص کی دماغی موت ہو چکی تھی اور اس کی صحت کی بحالی کی کوئی امید نہیں تھی۔
جبکہ بینیٹ یہ امید کرتے ہیں کہ یہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ انھیں اپنی آئندہ زندگی جینے میں مدد دے گا۔ اس سرجری سے قبل وہ چھ ہفتوں تک بستر پر رہے اور انھیں ایک مشین سے منسلک رکھا گیا تھا جو انھیں زندہ رہنے میں مدد دے رہی تھی۔
گذشتہ ہفتے انھوں نے کہا تھا کہ ‘صحت یابی کے بعد میں بستر سے اٹھنے کے لیے پرامید ہوں۔’ اطلاعات کے مطابق پیر کے روز بینیٹ خود سے سانس لینے کے قابل تاہم انھیں انتہائی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔
لیکن آگے کیا ہو گا یہ کسی کو بھی واضح نہیں ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے لیے استعمال کیے جانے والے سؤر کو جینیاتی طور پر تبدیل کیا گیا تھا اور ان جینز کو ختم کر دیا گیا تھا جنھیں بینیٹ کا جسم مسترد کر سکتا تھا۔
سرجن گریفتھ کا کہنا ہے کہ وہ بہت احتیاط سے آگے بڑھ رہے ہیں اور بینیٹ کی انتہائی نگرانی رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ بینیٹ کے بیٹے ڈیوڈ بینیٹ جونیئر نے ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ ‘تاحال خاندان کے افراد کو اس متعلق بے خبر رکھا گیا ہے۔’
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ‘انھیں اس سرجری کی اہمیت کا بخوبی احساس ہے اور وہ اس کے وسیع پیمانے پر اثرات سے بخوبی واقف ہیں۔` سرجن گریفتھ کا کہنا تھا کہ ‘میں نہ کبھی اس سے پہلے کسی انسان کے ساتھ ایسا نہیں کیا ہے اور میرے خیال میں اس ٹرانسپلانٹ کے بعد ہم نے ان (بینیٹ) کو ان کی علاج سے بہتر زندگی دینے کی کوشش کی ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن میں نہیں جانتا کہ اس کے بعد وہ ایک دن، ہفتہ، مینہ یا ایک سال زندہ رہ پاتے ہیں۔’