پیانگ یانگ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/روئٹرز) جاپان اور جنوبی کوریا نے اس میزائل لانچ کا پتہ لگایا ہے۔ چند روز قبل ہی اس نے ہائپرسونک ہتھیار کے کامیاب تجربے کا دعوی کیا تھا۔ متعدد ممالک پیونگ یانگ سے خطے کو ”غیر مستحکم” نہ کرنے کی اپیل کر چکے ہیں۔
جاپان اور جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے 11 جنوری منگل کی صبح ایک بیلسٹک میزائل فائر کیا۔ چند روز قبل ہی پیونگ یانگ نے ایک ہائپرسونک ہتھیار کا تجربہ کرنے کے دعوی کیا تھا اور اس کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں یہ نیا بیلیسٹک میزائل فائر کیا گیا ہے۔
جنوبی کوریاکے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے ایک بیان میں کہا، ”ہماری فوج نے آج صبح تقریباً سات بج کر 27 منٹ پر شمالی کوریا کی جانب سے زمین سے مشرقی سمندر کی طرف فائر کیے گئے ایک مشتبہ بیلسٹک میزائل کا پتہ لگایا۔”
جاپان کے کوسٹ گارڈز نے بھی میزائل لانچ کی اطلاعات فراہم کیں جن کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا نے ”بیلیسٹک میزائل جیسا کوئی پروجیکٹائل فائر کیا ہے۔” جاپان کی خبر رساں ایجنسی کیوڈو نے ٹوکیو میں سرکاری ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ میزائل جاپان کے خصوصی اکنامک زون سے باہر گرا ہے۔
جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے صحافیوں سے بات کے دوران اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ”شمالی کوریا کی جانب سے میزائل داغنے کا سلسلہ جاری ہے جو انتہائی افسوسناک بات ہے۔”
جنوبی کوریا کے ایوان صدر بلیو ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ جنوبی کوریا کی قومی سلامتی کونسل نے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کے بعد اس تجربے پر ”سخت افسوس” کا اظہار کیا ہے۔
چھ ممالک کی پہلے تجربے کی مذمت
تازہ ترین میزائل ایک ایسے وقت لانچ کیا گیا ہے جب امریکا اور جاپان سمیت دنیا کے چھ ممالک نے جوہری ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا پر زور دیا کہ وہ خطے میں ”عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات” سے گریز کرے اور، ”مکمل جوہری تخفیف اسلحہ کے مشترکہ مقصد کے لیے بامعنی مذاکرات میں شریک ہو۔”
امریکا، فرانس، آئرلینڈ، جاپان، برطانیہ اور البانیہ نے پیر کو ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس سے قبل ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے شمالی کوریا پر زور دیا تھا کہ وہ خطے میں خطرات پیدا کرنے والی حرکتوں سے باز رہے۔ یہ اجلاس گزشتہ ہفتے ہائپر سونک ہتھیار کے تجربے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر بات چیت کے لیے طلب کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر لنڈا تھامس نے اپنے ایک بیان میں کہا، ” یہ اقدامات غلط اندازوں اور کشیدگی کے خطرات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں اور علاقائی استحکام کے لیے ایک اہم خطرہ ہیں۔”
عسکری طاقت میں اضافے کی کوشش
شمالی کوریا کے حکمراں کم جانگ ان کی جانب سے عسکری قوت بڑھانے اور فوجی طاقت کو مضبوط کرنے کے عہد کے محض چند روز بعد ہی شمالی کوریا نے پانچ جنوری کو ایک ہائپر سونک ہتھیار کا تجربہ کرنے کا دعوی کیا تھا۔
امریکا اور جنوبی کوریا کے درمیان فی الوقت مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جبکہ بین الاقوامی صورت حال بھی غیر مستحکم ہے ایسے میں ان میزائل تجربات کو صورت حال کی جوابی کارروائی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سن 2019 میں میں کم جانگ ان اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ناکام سربراہی ملاقات کے بعد سے واشنگٹن اور پیونگ یانگ کے درمیان بھی بات چیت تعطل کا شکار ہے۔
موجودہ صدر جو بائیڈن کے ماتحت امریکی انتظامیہ بات چیت کے لیے آمادگی کا اظہار اس شرط پر کر چکی ہے کہ وہ ”جوہری تخفیف” کی کوشش کرے گی۔ تاہم پیونگ یانگ نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں بات چیت کے لیے تیار ہے جب واشنگٹن اپنی پابندیوں کو ختم کرے اور خطے میں اپنی فوجی مشقوں جیسی ”مخالف پالیسیاں ” بند کر دے۔