برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) جرمنی میں شامی خفیہ ایجنسی کےافسران پر انسانیت کے خلاف جرائم سےمتعلق مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ اس کارروائی کا مقصد ملزمان کےمبینہ جرائم کی تحقیقات کےساتھ ساتھ بشارالاسد کے تشدد اورجبر کے حکومتی نظام پر روشنی ڈالنا بھی ہے۔ 108 روز کی کارروائی کے بعد مغربی جرمن شہر کوبلینس میں ایک عدالت شام کے سابق انٹیلیجنس ایجنٹ ‘انور آر‘ کے خلاف مقدمے کا فیصلہ آئندہ جمعرات کو سنانے والی ہے۔ 58 سالہ انور شامی صدر بشار الاسد کے ظلم و جبر اور تشدد کے آلہ کار کے طور پر کام کرنے والی تنظیم کے ایک سینیئر رکن رہ چکے ہیں۔
انور آر کا تعارف
انور آر شامی خفیہ سروس کی برانچ 251 کے انچارج تھے اور کرنل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں میں شامی دارالحکومت دمشق کی سکیورٹی کے معاملات بھی شامل تھے۔ شامی خفیہ سروس کی یہ برانچ ایک جیل کے برابر میں واقع تھی۔ عدالتی چارج شیٹ کے مطابق اس جیل میں ملزم انور کی قیادت میں اپریل 2011 ء اور ستمبر 2012 ء کے دوران چار ہزار قیدیوں کو قریب 500 روز کے اندر اندر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
گنج پن کا شکار 58 سالہ کرنل ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔ دمشق کی برانچ 251 کی جیل میں قیدیوں کی زندگی اور موت سے کھیلنے میں مہارت سے پہلے انہوں نے شامی سکیورٹی سروس میں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ تاہم 2013 ء کے اختتام تک وہ اسد حکومت کے کٹر مخالف بن چکے تھے اور ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ بعد ازاں وہ شامی حکومت کے خلاف مزاحمت کے لیے مشیر بن گئے اور انہوں نے حزب اختلاف میں نمایاں کردار ادا کیا۔
جرمنی آمد
2014 ء میں شامی سکیورٹی سروس کے یہ سابق کرنل اپنے خاندان کے ساتھ جرمنی آ گئے۔ یہاں آ کر انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرائی، رہائشی اجازت نامہ حاصل کیا اور برلن میں ایک نیا گھر بنا لیا۔ انور کو اس بات کا خوف تھا کہ شامی انٹیلیجنس ان کا پیچھا کر رہی تھی۔ اس خوف سے گھبرا کر انہوں نے جرمن پولیس سے رابطہ کیا۔ جرمن پولیس نے انور آر سے تفصیلی پوچھ گچھ کی۔ وہ شام میں گزارے ہوئے وقت کے بارے میں جرمن پولیس کے تمام تر سوالات کا جواب دینے کے خواہش مند تھے۔
تحقیقات کرنے والے جرمن حکام کے قریبی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انور نے واضح طور پر کسی مقدمے کا سامنا کرنے کا تو تصور بھی نہیں کیا تھا۔ تفتیشی ٹیم کے مطابق وہ اپنی کہانیاں سناتے ہوئے بظاہر کسی بھی غلط کام یا جرم کے احساس سے قطعی مبرا نظر آ ئے۔ کئی مہینوں کی تفتیشی کارروائی کے بعد آخرکار جرمنی کے چیف فیڈرل پراسیکیوٹر آفس کی طرف سے فروری 2019 ء میں انور آر کو گرفتار کر لیا گیا۔
جرمن عدالت نے مجرم قرار دے دیا
شامی شہری انور کو جرمن عدالت نے تشدد اور ظلم و جبر کے ایک تاریخی مقدمے میں باقاعدہ مجرم قرار دے دیا۔ گرچہ جائے وقوعہ جرمنی سے بہت دور ہے لیکن مقدمے کی چھان بین کے دوران جمع کردہ شواہد کافی ہیں۔ مقدمے کے گواہان میں سے بہت سے بطور مہاجر جرمنی آئے اور اب ان میں سے کچھ جرمنی میں آباد ہو چکے ہیں۔ انور آر کے خلاف مقدمے میں 17 خواتین اور مردوں نے گواہی دی اور ان سب کو یورپی مرکز برائے آئینی اور انسانی حقوق (ECCHR) کی حمایت حاصل ہے۔ ان گواہان میں سے نو انور کے خلاف مقدمے کے مدعی ہیں۔
وکیل کا بیان
انور آر کے مقدمے کے وکیل وولفگانگ کالیک ہیں، جو برلن میں قائم ECCHR کے مرکز کے بانی بھی ہیں۔ انہیں اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ شامی نظام میں تشدد اور ایذا رسانی کی تفتیش اس کا شکار ہونے والوں کے لیے کتنی اہم ہے۔ کالیک نے ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 2020 ء میں مقدمے کی سماعت شروع ہونے کے بعد تشدد کا نشانہ بننے والوں میں سے ایک کا کہنا تھا،” میں 2015 ء میں یہاں پناہ گزین کی حیثیت سے آیا تھا۔ ایک ایسے شخص کے طور پر جو بغیر کسی حق کے، حتیٰ کہ اپنے وجود کے تحفظ کے حق کے بغیر۔ یہ مقدمہ مجھے میری زندگی واپس کر دے گا۔‘‘
انصاف کی امید
جرمن وکیل استغاثہ نے جنسی زیادتی، سنگین جنسی حملوں، مار پیٹ اور جسمانی حملوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بجلی کے جھٹکے لگانے سمیت کئی جرائم کی فہرست پیش کر دی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کم از کم 58 قیدی بدسلوکی اور ایذا رسانی کے سبب ہلاک ہو گئے۔ ایک اور ملزم ایاد اے کو پہلے ہی گزشتہ فروری میں سزا سنا دی گئی تھی۔ شامی خفیہ سروس کے اس سابق ایجنٹ کو انسانیت کے خلاف جرائم میں مدد اور تشدد کی کارروائیوں میں مدد اور اس کی حوصلہ افزائی کے الزام میں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
متوقع فیصلہ
آئندہ جمعرات کو متوقع عدالتی فیصلے سے ایک ہفتہ قبل انور آر کی دفاعی ٹیم نے کہا کہ اس ملزم کو بری کر دیا جانا چاہیے۔ کوبلینس کی اعلیٰ علاقائی عدالت کے سامنے اپنی درخواست میں انور کے وکیل یورگ فراٹزکی نے کہا کہ ملزم نے نہ تو تشدد کیا تھا اور نہ ہی تشدد کرنے کی ہدایات دی تھیں۔ اس کے برعکس انور نے تو قیدیوں کی رہائی کا انتظام تک کیا تھا۔ وکیل صفائی کے مطابق ملزم عدالتی کارروائی کے آغاز سے ہی اپنے خلاف الزامات کی تردید کرتا آیا ہے۔