کراچی (ڈیلی اردو) سندھ ہائیکورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر پولیس کو رینجرز ہیڈ کوارٹرز جاکر لاپتا افراد کی معلومات حاصل کرنے کی ہدایت کردی۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں جسٹس عبد المبین لاکھو پر مشتمل بینچ کے روبرو لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔
درخواست گزاروں کے وکلا نے موقف دیا کہ شہری وقار رحمان، شمشاد علی اور دیگر کو 6 سال پہلے رینجرز نے حراست میں لیا۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیئے لاپتا افراد کے اہلخانہ الزام لگا رہے ہیں رینجرز والے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ہم نے خط لکھے ہیں مزید بھی لکھیں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے خط نہیں لکھنا خود جاکر رینجرز والوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈریں مت جائیں اور جا کر پوچھیں آخر کار کون لے گیا ہے؟ اگر رینجرز والے شہریوں کو نہیں لے کر گئے تو پھر کون لے گیا ہے؟ اگر رینجرز کی ودری میں کوئی اور لے گیا ہے تو یہ اور بھی خطرناک صورتحال ہے۔ تعزیرات پاکستان اجازت دیتا ہے پولیس کہیں جاکر کسی سے بھی تحقیقات کرسکتی ہے۔
رینجرز پراسیکیوٹر حبیب احمد نے موقف دیا کہ رینجرز نے تحریری جواب جمع کرادیا ہے کسی کو حراست میں نہیں لیا۔
عدالت نے کہا چیک کرنے میں کیا ہے تفتیشی افسر جائیں اور رینجرز ہیڈ کوارٹرز چیک کریں۔ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیئے کہ تفتیشی افسران کے رینجرز ہیڈ کوارٹر جانے سے بڑا فرق پڑے گا۔
جسٹس عبد المبین لاکھو نے ریمارکس میں کہا کہ ہم 15 دن کا وقت دے رہے ہیں ہر طرح سے تحقیقات کرکے رپورٹ جمع کرائیں۔
عدالت نے دیگر اداروں سے بھی پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔