لاہور (ڈیلی اردو) عدالت نے سوشل میڈیا پر تحریف شدہ قرآن پاک کی اشاعت کے ملزمان کی ضمانت مسترد کردی، عدالت نے قرار دیا کہ اظہارِ رائے کی آزادی بھی حدود میں رہ کر استعمال ہوگی اور اظہار رائے کی آڑ میں دوسروں کے جذبات مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم نے 17 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، فیصلے میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تین ملزمان ظہیر احمد، شیراز احمد اور محمود اقبال ہاشمی کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی گئیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے واٹس ایپ گروپوں میں تحریف شدہ قرآن کی تشہیر پر مقدمہ درج کیا گیا، پاکستان ایک اسلامی ریاست اور آئین میں اسلام اور مسلمان کی تشریح موجود ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ مسلمان کا اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان لازمی ہے، آئین میں ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والے کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔
تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ قانون میں قرآن پاک کے الفاظ، ترجمہ میں تحریف قابلِ سزا جرم ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی غلطیوں سے پاک اشاعت کا حکم دیا ہے۔
فیصلے کے مطابق تحریف قرآن پاک کی کسی بھی شکل یا ذریعے سے تشہیر قابلِ تعزیر جرم ہے، قانون میں کسی بھی مذہب کی تضحیک کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ملزمان نے مقدمے کو آزادی اظہار رائے پر قدغن کہا، اظہار رائے کی آزادی بھی حدود میں رہ کر استعمال ہوگی، اظہار رائے کی آڑ میں جذبات مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
تحریری فیصلہ کے مطابق آزادی اظہار کی آڑ میں ایسے واقعات سے انتشار، بگاڑ اور افراتفری پھیلے گی، پاکستان میں نفرت آمیز مواد اور تقریر پر مختلف قوانین موجود ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قوانین میں متوازن آزادی اظہار رائے اور تقاریر تشریح موجود ہے، قانون میں کسی عقیدے، نسلی، لسانی بنیاد پر نفرت آمیز مواد کی تشہیر کی اجازت نہیں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ملزمان کا قادیانیت کی تشہیر کیلئے سندھ سلامت گروپ بنانا غیر قانونی ہے، گروپ میں تحریف شدہ قرآن پاک، مذہبی منافرت پر مبنی کتب شیئر کی گئیں۔
آئین اور قانون میں قادیانیوں کا خود کو مسلمان ظاہر کرنا، کہنا اور تشہیر جرم ہے، تحقیقات میں ملزمان گناہ گار پائے گئے، ایف آئی اے معاملے کی مزید تحقیقات کرے۔