لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے قتل کے واقعے کو سوشل میڈیا پر درست قرار دینے والے ایک شہری کو سزا سنائی ہے۔
اس مقدمے کی سماعت شہر میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں کی گئی جہاں قتل کے مرکزی کیس کی سماعت بھی الگ سے کی جارہی ہے۔
استغاثہ کے مطابق مجرم محمد عدنان نے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے قتل کو درست قرار دے کر سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کی تھی جبکہ مقدمے کی سماعت کے دوران انھوں نے عدالت میں اعتراف جرم بھی کر لیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جج نتاشہ نسیم سپرا نے جرم ثابت ہونے پر ملزم کو ایک سال قید اور 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور مینیجر کام کرنے والے پریانتھا کمارا کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔
پاکستانی اور سری لنکن اعلیٰ حکام نے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی جبکہ پریانتھا کی اہلیہ نے وزیر اعظم عمران خان سے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔
پولیس نے اپنی کارروائی کے دوران ویڈیوز میں نظر آنے والے سو سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں سے 13 کو مرکزی ملزم بتایا گیا تھا۔ ان افراد کے خلاف عدالتی کارروائی جاری ہے۔
یوٹیوب کے ذریعے ’مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش‘
ملزم عدنان کے خلاف 5 دسمبر 2021 کو، یعنی سیالکوٹ واقعے کے چند روز بعد، تھانہ رنگ پورہ سیالکوٹ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس میں دہشتگردی کے علاوہ نقص امن کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔
اس ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ملزم نے یوٹیوب چینل ’عدنان افتخار بسری‘ سے ایک ویڈیو اپ لوڈ کر کے وائرل کی تھی۔ اس ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ راجکو فیکٹری کا مینیجر فیکٹری کے ملازمین کو نہ نماز پڑھنے دیتا تھا نہ قرآن پاک کی تلاوت چلانے دیتا تھا۔‘
اس ویڈیو میں لوگوں کو اشتعال دلاتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ سری لنکن شہری نے ’قرآن کی بے حرمتی کی ہے‘ اور پیغمبر اسلام ’کی شان میں گستاخی کی ہے جس پر فیکٹری کے ورکرز عاشقان رسول نے اسے پکڑ کر تشدد کر کے واصل جہنم کر دیا ہے اور اس کی نعش کو پیٹرول ڈال کر جلا دیا ہے۔‘
خیال رہے کہ حکومت پنجاب کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب ڈسپلن کے سخت فیکٹری مینیجر پریانتھا نے مذہبی سٹیکرز اتارنے کا کہا جس پر ملازمین کو غصہ آیا۔
ایف آئی اے میں کہا گیا کہ ملزم عدنان نے اس ویڈیو کے ذریعے نقص امن کا خدشہ پیدا کیا، لوگوں میں مذہبی منافرت پھیلائی اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھار کر اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں عدنان نے اقرار جرم کیا کہ اس نے واقعے کے بعد اپنے یوٹیوب چینل پر ویڈیو اپ لوڈ کی اور ویڈیو میں ملزمان کے کردار کو درست قرار دیا تھا۔