پشاور (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے اور عالمی اداروں کی جانب سے امداد کی بندش کے نتیجے میں پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کے گھرانوں کے ہزاروں طلبا و طالبات کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔
بعض عالمی امدادی تنظیموں کی جانب سے امداد بند ہونے کے بعد ایسے تعلیمی ادارے چلانے کے لیے کئی نجی اسکولوں کی انتظامیہ نے بچوں سے ماہانہ فیس طلب کرنا شروع کر دی تھی، جس کے بعد زیادہ تر والدین نے اپنے بچوں کو اسکول جانے سے روک دیا۔
ایسے تقریباﹰ سبھی افغان اسکول کرائے کے مکانوں میں قائم کیے گئے ہیں اور انہیں ماہانہ کرائے اور اپنے اساتذہ اور عملے کی تنخواہوں کے علاوہ بجلی اور پانی کے بلوں کی ادائیگی کے لیے بھی مجموعی طور پر خطیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بچوں سے فیس طلب کی گئی تو بہت سے طلبا و طالبات کے والدین نے اپنے بچوں کو مجبوراﹰ اسکول نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد یومیہ اجرت پر کام کرتی ہے اور ایسے افغان شہریوں کی آمدنی کورونا وائرس کی وبا سے بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ایسے میں بچوں کی فیسوں اور کتابوں کا خرچہ پورا کرنا مشکل ہوگیا، تو مجبور والدین نے اپنے بچوں کو گھر بٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔
عالمی اداروں کی طرف سے امداد بند
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پامیر ایجوکیشن سسٹم کے سربراہ ڈاکٹر نور سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو ان کا کہنا تھا، ”لڑکیوں میں اسکول چھوڑنے کی شرح 55 فیصد جبکہ لڑکوں میں یہ شرح چالیس فیصد ہے۔ پہلے کئی امدادی ادارے ان اسکولوں کو سپورٹ کرتے تھے۔ ایک جانب کورونا وائرس کی وجہ سے اور دوسری جانب افغانستان کے حالات کی وجہ سے بھی مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں۔ بعض عالمی امدادی تنظیموں نے بھی ایسے تعلیمی اداروں کی مدد کرنا بند کر دی ہے۔‘‘
ڈاکٹر نور کا مزید کہنا تھا، ”جب بعض اسکول مالکان نے بچوں کو فیس ادا کرنے کے لیے کہا، تو ان کے والدین نے بچوں کا اسکول آنا ہی بند کر دیا۔ وہ تو اپنے گھروں کا خرچہ بھی پورا نہیں کر سکتے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افغان مہاجرین نے ان بچوں کو بھی اپنے ساتھ کام پر لگا دیا۔ کچھ بچے اب سڑکوں سے کچرا جمع کرتے ہیں تو کچھ بازاروں میں چھوٹی موٹی اشیاء فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ اب ایسے بچے شام کو سو دو سو روپے گھر لاتے ہیں۔ جب ان بچوں کے ہاتھ پیسے آ گئے، تو انہیں اسکولوں میں واپس لانا بہت مشکل ہو گا۔‘‘
افغان مہاجرین کے نجی اسکولوں میں طلبا و طالبات کی تعداد دس ہزار سے زائد
اعداد و شمار کے مطابق پشاور اور اس کے نواحی علاقوں میں افغان مہاجرین کے 37 نجی اسکولوں میں دس ہزار سے زائد طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں جبکہ اقوام متحدہ کا مہاجرین کے لیے امدای ادارہ پاکستان بھر میں مہاجر بستیوں میں قائم بہت سے اسکولوں کے لیے امداد فراہم کر رہا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کی تینتالیس بستیوں میں قائم 103 اسکولوں میں 55 پچپن ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”ان اسکولوں میں پرائمری اور سیکنڈری کی سطح کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ کئی اسکول تو گھروں میں بھی قائم ہیں۔‘‘
حکومتی سطح پر افغان مہاجرین کے بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ وہ سرکاری اسکولوں میں داخلہ بھی لے سکتے ہیں جبکہ پشاور یونیورسٹی، میڈیکل کالجز اور انجینیئرنگ یونیورسٹی پشاور میں تو حال ہی میں 200 سے زائد افغان طلبا کو وظیفوں پر داخلہ بھی دیا گیا۔