پیونگ یانگ (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے پی/اے ایف پی) جنوبی کوریا کی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے اپنے مشرقی ساحل سے سمندر میں مشتبہ بیلسٹک میزائل لانچ کیے ہیں۔ رواں ماہ شمالی کوریا اب تک چھ بار مختلف طرح کے میزائلوں کا تجربہ کر چکا ہے۔
جنوبی کوریا کی فوج نے 27 جنوری جمعرات کے روز بتایا کہ اس کے پڑوسی ملک شمالی کوریا نے اپنے مشرقی ساحل سے سمندر میں دو مشتبہ بیلسٹک میزائل فائر کیے ہیں۔ جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا کہنا تھا کہ یہ میزائل مشرقی ساحلی علاقے سے لانچ کیے گئے، جو 20 کلومیٹر کی بلندی پر تقریباً 190 کلومیٹر سے زیادہ تک سفر کیا۔
صحافیوں کو بھیجے گئے ایک پیغام میں جنوبی کوریا کے فوجی سربراہ نے کہا: ”ہماری فوج شمالی کوریا کی متعلقہ نقل و حرکت پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ہی اپنی تیاری کی پوزیشن کو برقرار رکھا ہوا ہے۔”
رواں برس کا چھٹا تجربہ
پیونگ یانگ کی جانب سے رواں برس یہ چھٹا میزائل تجربہ ہے۔ اس دوران اس نے جو دیگر میزائل تجربات کیے ہیں ان میں منگل کے روز مشتبہ کروز میزائل کا تجربہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ پانچ اور 11 جنوری کو اس نے جو تجربات کیے، اس کے بارے میں خود اس نے ہائپر سونک میزائل ہونے کا دعوی کیا تھا۔
پیونگ یانگ نے اس سطح پر ہتھیاروں کا آخری تجربہ سن 2019 میں اس وقت کیا تھا جب شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان بات چیت ناکام ہو گئی تھی۔
شمالی کوریا کے یہ حالیہ تجربات 2019 کے بعد سے سب سے بڑے پیمانے کے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش اور خطے کے دیگر ممالک نے ان تجربات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پابندیاں اور معطل مذاکرات
صدر ٹرمپ کے ساتھ بات چیت میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی تھی اور پھر بعد میں بائیڈن انتظامیہ نے بھی اشارہ دیا تھا کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ تاہم اس نے یہ شرط بھی رکھی تھی پیونگ یانگ پہلے اپنے میزائل تجربات کو کنٹرول کرے اور اپنے جوہری ہتھیاروں کو تلف کر دے۔
کم جانگ ان نے بھی بات چیت جاری رکھنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تاہم انہوں نے بھی یہ شرط رکھی کہ پہلے امریکا اپنی پابندیوں اور فوجی مشقوں جیسی ”دشمنانہ پالیسیاں ” ترک کرے۔
اس ماہ کے اوائل میں ہی امریکا نے ملک کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے تعلق رکھنے پر پانچ اعلیٰ سطحی شمالی کوریائی باشندوں پر پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔
امریکی وزارت خزانہ کے ایک بیان کے مطابق جن پانچ افراد کو ان پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا وہ، ”بڑے پیمانے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور بیلیسٹک میزائل سے متعلق پروگراموں کے لیے سامان کی خریداری کے ذمہ دار تھے۔”